حج سکینڈل....پہلے والے تفتیشی افسر واپس لانے کا حکم‘ ایسا نہ کیا گیا تو ڈی جی ایف آئی اے کو معطل کر کے توہین عدالت کی کارروائی ہو گی : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت/ نیٹ نیوز/ ایجنسیاں/ مانیٹرنگ نیوز) حج سکینڈل کیس کی سماعت کرتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے کو حکم دیا کہ تحقیقات کرنے والے افسروں جاوید بخاری اور حسین اصغر کے تبادلے منسوخ کرکے واپس تعینات کیا جائے ورنہ ڈی جی ایف آئی اے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو گی۔ ڈی جی ایف آئی اے ملک اقبال نے کہاکہ وہ عدالت کی حکم عدولی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالتی احکامات کو انتظامی حکم کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا ، حج سکینڈل کی تفتیش کرنے والے ایف آئی اے کے افسران کے تبادلے انتظامیہ کی ایسی ہی کوشش ہے۔ عدالت نے کہا کہ افسروں کے تبادلوں کا نوٹیفکیشن واپس لیا جائے ورنہ عدالت خود احکامات جاری کرے گی اور ان کے تبادلوں کے احکامات معطل کر دے گی جب مقدمہ عدالت میں زیرسماعت ہو تو افسران کے تبادلے نہیں کئے جا سکتے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں چار رکنی بنچ نے سماعت کی۔ حامد سعید کاظمی کے وکیل نے کہاکہ اعظم سواتی اور عمر شیر زئی الزامات ثابت نہیں کر سکے اس لئے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ یہ ہمارا نہیں ٹرائل کورٹ کا کام ہے۔ عدالت نے ظفر قریشی اور حسین اصغر کے تبادلوں پر برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ سپریم کورٹ جس کرپشن پر ہاتھ ڈالتی ہے وہاں تبادلے کر دئیے جاتے ہیں۔ انہوں نے ڈی جی ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ جب مقدمہ زیر سماعت ہو تو ایسا کیوں کیا جاتا ہے۔ جسٹس راجہ فیاض نے کہا کہ یہ عدالتی احکامات کو غیرمﺅثر کرنے کی ایک کوشش ہے مگر انتظامی حکم کے ذریعے عدالتی احکامات کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ تحقیقات کرنے والے افسروں کو ہٹانا یا تبدیل کرنا عدالت کے کام میں مداخلت کے مترادف ہے۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ عبدالرﺅف چودھری نے عدالت کو بتایا کہ حسین اصغر کی خدمات حکومت سندھ نے طلب کی تھیں۔ ہم نے انکار کر دیا جس کے بعد حکومت نے انہیں گلگت بلتستان کا آئی جی لگا دیا ہے جبکہ ظفر قریشی کے حوالے سے ایف آئی اے نے خط لکھا کہ انہوں نے تحقیقات مکمل کر لی ہیں۔ اس لئے ان کا تبادلہ کر دیا جائے۔ ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ ان افسروں کو واپس لانے کیلئے وزیراعظم سے بات کرنا پڑے گی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ جس سے دل چاہے بات کریں ہم احکامات پر عملدرآمد چاہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل کو ان پر اعتماد نہیں لہٰذا انہیں الگ کر دیا جائے۔ ڈی جی ایف آئی اے نے کہاکہ تمام تبادلے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے کئے ہیں۔ جسٹس راجہ فیاض نے کہاکہ ان افسروں کو ترقی دینے سے کوئی منع نہیں کرتا مگر تحقیقات مکمل ہونے تک افسروں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا تو مطلب ہے کہ ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے عدالتی احکامات کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے، ایسے اقدام کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حسین اصغر مقدمے کے تمام پہلوﺅں سے آگاہ ہیں مگر نئے تفتیشی افسر چودھری منظور کو کچھ علم نہیں وہ ایف سی سے آئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ صحافیوں کے حوالے سے حکم دیا گیا تھا کہ انہیں ہراساں نہ کیا جائے۔ صحافیوں نے وہاں دس دن گزارے تھے مگر ان کے کھاتے میں 40روز کی رقم ڈالی جا رہی ہے۔ یہ درست اقدام نہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی نے آکر تمام کیس تباہ کردئیے کسی کیس میں پیش رفت نہیں ہو رہی جس کیس پر عدلیہ ہاتھ ڈالتی ہے۔ اس کے تفتیشی افسروں کو تبدیل کردیا جاتا ہے۔عدالت نے ایف آئی اے کے افسران ایڈیشنل ڈائریکٹر جاوید بخاری اور ڈائریکٹر حسین اصغر کی حج کرپشن تحقیقات سے علیحدگی پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ عبدالرﺅف چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ حسین اصغر کو گلگت بلتستان کا آئی جی مقرر کردیا ہے جبکہ جاوید بخاری نے لکھ کردیا کہ مجھے تحقیقات سے علیحدہ کردیا جائے۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ اگریہ دونوں افسر تفتیش سے علیحدہ ہوتے ہیں توانہیں فارغ کردیا جائے اور اگر یہ افسر واپس نہ آئے تو ڈی جی ایف آئی اے کو معطل کردیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جس بھی ایماندار افسر کو لگایا جاتا ہے اسکو تبدیل کردیا جاتا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے استفسار کیا کہ جب ایسے افسران کو تبدیل کردیا جاتا ہے تو اس پر آپ کا محکمہ کوئی مزاحمت نہیں کرتا جس پر عبدالرﺅف چوہدری نے کہا کہ حسین اصغر کی خدمات سندھ حکومت نے مانگی تھیں جس کو رد کردیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے افسروں جن کو کوئی ٹاسک دیا جائے اور وہ اس کو پورا نہ کریں تو ایسے افسران کو فارغ کردینا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حج کرپشن کیس کے ذریعے پوری قوم کو بدنام کیا گیا۔ رقم واپسی کیلئے دوسرے ممالک کا سہارا لینے سے ملک کی مزید بدنامی ہوئی ہے۔ عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو حکم دیا کہ وہ جاوید بخاری اور حسین اصغر کو واپس تعینات کرےں جس پر ڈی جی ایف آئی اے ملک اقبال نے مہلت طلب کی کہ مجھے وزیراعظم سے مشاورت کیلئے وقت دیا جائے، عدالت نے ایک ہفتہ کا وقت دیتے ہوئے مزید سماعت اگلے (جمعہ) 6 مئی تک کیلئے ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ/ ڈی جی ایف آئی اے
سپریم کورٹ/ ڈی جی ایف آئی اے