
بے نقاب اورنگ زیب اعوان
laghari768@gmail.com
یہ لفظ سنتے ہی ذہن میں زمانہ طالب علمی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے . جس میں ہر طالب علم مختلف تجربات کرتا ہے. اور ان تجربات سے حاصل شدہ نتائج سے کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے. تجربات انسانی زندگی کا لازمی جز ہیں. یہ تجربات ہی ہیں. جو انسان کو اپنی غلطیوں کو درست کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں. مگر ہر جگہ تجربات کرنا سود مند نہیں ہوتا. کچھ جگہوں پر تجربات فائدہ کی بجائے نقصان دہ ہوتے ہیں. ایسی ہی صورتحال ملک پاکستان کی ہے. جس کو ہمارے حکمرانوں نے تجربہ گاہ بنا رکھا ہے. یہاں آئے روز نت نئے تجربات کیے جاتے ہیں. کبھی جمہوریت، کبھی آمریت تو کبھی صدارتی نظام حکومت کے تجربات ہوتے رہتے ہیں. اس سے ہٹ کر جو بھی حکمران آیا. اس نے اپنی الگ سے ڈاکٹریٹ قائم کی. ان تمام تجربات کا خمیازہ ہمیشہ عوام کو بھگتنا پڑا. جس کی حالت زار ہمیشہ ابتر سے ابتر ہوتی چلی گئ. نااہل حکمرانوں نے اس میں سدھار کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی. کچھ طاقتوں سے ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی برداشت نہیں ہوتی. اس لیے وہ ہر بار ترقی کے راستہ پر گامزن ملک کو پستگی اور اندھیروں کی طرف دھکیل دیتے ہیں. آمریت نے اس ملک کے وجود سے لیکر اب تک نصف عرصہ اس پر حکمرانی کی ہے. ہر آمر نے اپنے دور حکومت میں یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے. کہ اس کا دور حکومت سب سے بہتر ہے. جنرل ایوب خان کے دور حکومت کو زراعت کے لیے بہترین دور تصور کیا جاتا ہے.اسی طرح سے جنرل ضیائ الحق شہید کے دور کو اسلامی اصلاحات کے لیے بہترین تصور کیا جاتا ہے. جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے دوران امریکہ پاکستان کے تعلقات مثالی رہے. اس دوران ملک میں مثالی سرمایہ کاری ہوئی. شاید یہ سب کچھ عارضی یا مصنوعی ہوتا ہے. جیسے ہی ان کی حکومتیں اپنے انجام کو پہنچی. ساتھ ہی ان کے خوشحالی کے خواب بھی چکنا چور ہو گئے. اور عوام کی قسمت میں وہی غربت و افلاس آئی. جمہوری حکومتوں کو ان آمروں نے کبھی بھی مدت پوری نہیں کرنے دی. کسی کو اختیارات کے ناجائز استعمال کی پاداش میں. تو کسی کو مالی بدعنوانی میں اور کسی کو ذاتی رنجش کی بنیاد پر اقتدار سے محروم کر دیا گیا. ان تجربات کے نتیجہ میں ملک پاکستان ترقی کی بجائے. اس مقام پر پہنچ گیا. جہاں اس کو اپنے وجود کو برقرار رکھنا بھی محال ہو چکا ہے. بیرونی دنیا اس پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں. کوئی بھی ترقی یافتہ ملک اس کے ساتھ سرمایہ کاری میں سنجیدہ نہیں. اسے بے یقینی ہوتی ہے. کہ پتہ نہیں کب اس ملک میں حکومت تبدیل ہو جائے. اس لیے وہ معاہدات کرتے ہوئے گھبراتے ہیں. پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے اپنے پہلے دور حکومت میں غریب عوام کے لیے پیلی ٹیکسی کی سکیم متعارف کروائی. جس سے پڑھے لکھے نوجوانوں کو باعزت روزگار کمانے کا وسیلہ ملا. مگر کچھ طاقتوں کو عوام کی یہ خوشی برداشت نہیں ہوسکی .انہوں نے ان کی حکومت کو غیر قانونی طریقہ سے ختم کر دیا . عوام کی طاقت سے یہ دوسری بار حکومت میں آئے. تو انہوں نے پاکستان کو ایشیائی ٹائیگر بنانے کے عزم کا اظہار کیا. انہوں نے امریکہ کی مخالفت کے باوجود ملک پاکستان کو اٹیمی طاقت بنایا. جس کی پاداش میں انہیں طیارہ سازش کیس میں دس سال کی جلاوطنی برداشت کرنا پڑی. اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور عوامی طاقت کے بل بوتے پر وہ تیسری بار وزیراعظم پاکستان بنے. تو انہوں نے ترقی کے سفر کا آغاز وہی سے کیا. جہاں چھوڑ کر گئے تھے. انہوں نے بدترین لوڈشیڈنگ میں ڈوبے ہوئے ملک کو روشنیوں کا گہوارہ بنایا. ملک بھر میں موٹر ویز کا جال بچھایا. اور دیرینہ دوست ملک چین کی مدد سے سی پیک منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا. جس کے تحت ملک پاکستان کو یورپ، عرب اور وسطی ایشیائی ممالک سے بذریعہ سڑک ملانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے والا تھا. مگر اس بار بھی کچھ خفیہ طاقتوں سے یہ برداشت نہ ہو سکا. اور انہیں پانامہ سیکنڈل کی آڑ لیکر اقامہ پر حکومت سے نکال دیا گیا. اس کے بعد سازش اور دھونس دھاندلی سے ایک حکومت قائم کی گئی. جس کو پاکستان کی پچہتر سالہ تاریخ کی بہترین حکومت قرار دیا گیا. مگر اس حکومت کی نااہلی اور نا تجربہ کاری نے ایسے ایسے کارنامے سر انجام دیئے. جس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی. جب پانی سر سے گزر گیا. تو اس حکومت کو ختم کر کے مخلوط حکومت قائم کی گئی. جس کی انتھک محنت کی وجہ سے ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا. مگر یہ عارضی ریلیف تھا.
مستقل ریلیف کے لیے دوست ممالک نے بطور وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کا انتحاب کیا ہے. ان کی نظر میں اگر کوئی شخص ملک پاکستان سے مخلص ہے. تو وہ میاں محمد نواز شریف ہے. اس لیے ایک بار ہھر سے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے. میاں محمد نواز شریف کو واپس وطن آنے کی اجازت دی جا رہی ہے. اکیس اکتوبر کو میاں محمد نواز شریف پاکستانی عوام کے درمیان ہوگے. پاکستان مسلم لیگ ن کے ورکرز اپنے قائد کا فقید المثال استقبال کرنے کے لیے بے چین بیٹھے ہیں. یہاں سوال پیدا ہوتا ہے. کہ اگر میاں محمد نواز شریف پاکستان کی ترقی کے لیے لازمی جز ہے. تو پھر انہیں زبردستی سے نکال باہر کیوں کیا جاتا ہے. کیا یہ خفیہ طاقتیں ملک ترقی نہیں چاہتیں. خدا کرے. کہ اس بار ملک پاکستان میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں ترقی کی ان منازل کو چھوئے. جن کا خواب بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور شاعر مشرق علامہ اقبال نے دیکھا تھا.
میاں محمد نواز شریف ملک پاکستان کی ترقی کی علامت بن چکے ہیں. ان کی وطن واپسی ملک ترقی اور خوشحالی کی دستک ہے. جس پر کسی صورت دروازہ بند نہیں رکھنا چاہیے. وہی ملک اور قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں. جو اپنے ملک کو ملک سمجھ کر اس کی بہتری کے لیے سوچتی ہیں. ہم تو آج تک ملک پاکستان کو تجربہ گاہ سمجھ کر اس میں تجربات کر رہے ہیں. جن کے نتائج سے کچھ سیکھ بھی نہیں رہے. آئیے مل کر عہد کرے. کہ اب کی بار ہم نے ایک قوم بن کر اپنے ملک کی بہتری کے لیے جدوجہد کرنی ہے. ناکہ تجربہ گاہ سمجھ کر الٹے سیدھے تجربات کرنے ہیں. اللہ تعالیٰ ملک پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے. آمین