مقبولیت کا سروے اور دھرنے کا جھرنا

پی ٹی آئی کے پ±رجوش حامی سروے ادارے نے تازہ سروے کے نتائج جاری کر دیئے ہیں۔ یہ سروے جولائی میں کرایا گیا تھا۔ خبر چھاپنے والے اخبار نے لکھا ہے کہ سروے ایک سیاسی جماعت کی فرمائش پر کرایا گیا۔ یعنی پی ٹی آئی نے اپنے عقیدت مند ادارے سے فرمائش کی اور اس ادارے نے تعمیل ِفرمائش کی۔
حسب فرمائش نتائج کے مطابق خان صاحب ملک کے مقبول ترین رہنما ہیں جن کی مقبولیت 60 فیصد ہے۔ باقی چالیس فیصد آبادی کی حمایت باقی ماندہ جماعتوں میں بٹی ہوئی ہے۔
سروے نتیجہ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ جولائی سے محض دو ماہ پہلے بھی اسی حلقے نے ایک سروے کیا تھا جس میں خان صاحب کی مقبولیت95فیصد دکھائی گئی تھی اور حاشیے میں بتایا گیا تھا کہ مقبولیت کی اس شرح میں ہر روز کے حساب سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ محض دو ماہ میں یہ باقی 35 فیصد کہاں گئے؟
یہ عقدہ حیرت فزا سروے کی تفصیل میں جانے سے کھل جاتا ہے۔ لکھا ہے کہ ملک کے دوسرے مقبول ترین لیڈر چودھری پرویزالہیٰ (مونس الٰہی والے) ہیں جن کی مقبولیت 38 فیصد ہے۔ 38 اور 60 ملا کر 98 فیصد ہو گئی کیونکہ پرویزالٰہی اسی جماعت کے صدر ہیں جس کے چیئرمین خان صاحب ہیں۔ یعنی دونوں ملا کر دو سے 3 فیصد زیادہ مقبول ہیں۔گویا پچھلے سروے کی یہ بات بھی سچ نکلی کہ فی الوقت مقبولیت 95 فیصد ہے جو بڑھ رہی ہے۔
تیسرے نمبر پر ایک نسبتاً کم معروف مولوی صاحب ہیں‘ ان کی مقبولیت بھی لگ بھگ 38 فیصد ہے۔ ملک کے چوتھے مقبول ترین فرد شاہ محمود قریشی ہیں۔ ان کی مقبولیت 37 فیصد ہے۔ ابھی یہ نکتہ زیرغور ہے کہ اسے ہر دو اول الذکر حضرات کی مقبولیت میں جمع کرنا ہے کہ نہیں۔ جمع کر دیا جائے تو خان صاحب کی مقبولیت سو فیصد سے ایک سو پینتیس ہو جائے گی۔ چنانچہ فی الحال اس معاملے کو زیرالتوائ رکھ دینا ہی مناسب ہے۔
................
مقبولیت کے اس چارٹ میں نوازشریف پانچویں نمبر پر ہیں اور یہ اس سروے کا سب سے حیرت انگیز نکتہ ہے۔ گزشتہ سروے میں انہی احباب نے بتایا تھا کہ نوازشریف کی مقبولیت گرتے گرتے دس سے بارہ فیصد کے درمیان آکر اٹک گئی ہے۔ حیرت کی بات ہے بلکہ بہت ہی حیرت کی بات ہے۔ انہی احباب کے ایک ٹی وی چینل نے البتہ دو ہفتے پہلے بتایا تھا کہ نوازشریف کی مقبولیت محض چار فیصد رہ گئی ہے۔ یعنی وہ کسی بھی حلقے سے الیکشن لڑیں‘ ان کی ضمانت ضبط ہو جائے گی۔ بہرحال حسب فرمائش والا سروے یہ خبر دیتا ہے کہ نہیں‘ ضمانت ضبط نہیں ہوگی۔ مسلم لیگ والوں کو مبارک ہو۔ سروے کے مطابق اندرون سندھ کی سب سے بڑی پارٹی بھی پی ٹی آئی ہے جسے 36 فیصد کی حمایت ہے۔ پی پی 35 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔
................
سروے کے نتائج پر اعتبار کی گواہی دو روز پہلے ہی آگئی تھی جب خان صاحب کو اٹک سے اڈیالہ جیل لایا جا رہا تھا۔ اس سے پہلے ہائیکورٹ کا حکم نامہ جاری ہوا کہ فوراً جیل منتقلی کی جائے۔ چنانچہ اس کے بعد یہ خبر بھی آگئی کہ چند گھنٹوں بعد انتقالِ اسیر کا عمل شروع ہو جائے گا اور اس کے فوراً بعد پی ٹی آئی پختونخوا نے یہ ہدایت نامہ جاری کر دیا کہ کارکن جوق در جوق (ایک ٹی وی چینل پر کوئی مہمان مبصر‘ کسی اور خبر کے حوالہ سے اس ترکیب کو جونک در جوک پڑھ رہا تھا) پہنچی۔ اٹک پختونخوا کی سرحد پر ہے اور بہت سے شہر اس کے بالکل نزدیک ہیں۔
چنانچہ کارکن جوق در جوق پہنچے اور دیکھتے ہی دیکتھے ان کی تعداد مبلغ دس عدد تک پہنچ گئی۔ اس سے پہلے کہ تعداد گیارہ ہوتی‘ قافلہ اسیر وہاں سے گزر گیا۔ اندازہ کیجئے کہ قافلے کی آمد میں کچھ گھنٹے اور لگ جاتے تو تعداد بڑھ کر کتنی ہو جاتی۔ سروے کرنے والے مذکورہ ادارے سے رائے لی جانی چاہئے۔ جو یقینا یہی اطلاع دے گا کہ اس صورت میں پندرہ سے بیس لاکھ کارکن اکٹھے ہو جانے تھے۔
اچھا ہی ہوا کہ قافلہ تیزرفتاری سے نکلا۔ تاخیر ہو جاتی توپندرہ بیس لاکھ کارکنوں کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔
ایک چینل پر جاری پروگرام کے دوران پی ٹی آئی کے شیر افضل مروت اور مسلم لیگ (ن) کے افنان اللہ میں لڑائی ہو گئی۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس لڑائی میں شیر افضل صاحب تو شیر ثابت ہوئے ہیں‘ افنان اللہ شیر ہونے کے معیار پر پورا نہ اتر سکے۔
پی ٹی آئی کے حامی سمجھے جانے والے ایک چینل کے تجزیہ نگار وسیم بادامی صاحب نے اپنے ذرائع سے لڑائی کی جو تفصیل بیان کی ........ "افنان اللہ شیر ثابت نہ ہو سکے" اسی سے اخذ کیا گیا۔ ان کے مطابق مشتعل ہوکر شیر افضل نے افنان اللہ پر حملہ کردیا۔ حملہ اچانک تھا‘ اس لئے افنان اللہ فوری طورپر سنبھل نہ سکے‘ لیکن سنبھل کر جوابی حملہ کیا تو شیر افضل زمین دراز ہو گئے اور افنان اللہ نے ان پر اسی حالت میں جوابی حملے جاری رکھے اور اس وقت تک گرے ہوئے حریف پر لات درازی کرتے رہے جب تک کہ ٹی وی عملہ نے مداخلت کرکے انہیں الگ نہیں کیا۔
آپ نے وائلڈ لائف کی فلموں میں دیکھا ہوگا کہ دو شیروں میں جب لڑائی چھڑتی ہے تو کمزور لڑنے والا شیر زمین پر لیٹ جاتا ہے جس پر حاوی شدہ شیر بھی ہاتھ روک لیتا ہے۔ یوں لڑائی ختم ہو جاتی ہے۔ بشرطیکہ کمزور شیر فوراً ہی وہاں سے اٹھ کر چلا جائے۔ شیر افضل نے زمین دراز ہوکر ”شیر پنے“ کا مظاہرہ نہ کیا‘ پس افنان اللہ نے لات ماری نہ روکی۔ یعنی وہ شیر ثابت نہ ہوئے۔
................
سپریم کورٹ میں فیض آبا دھرنا کیس کی سماعت چل رہی تھی۔ چار سال پہلے کئے گئے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستیں دائر کرنے والے تمام فریق اب ان درخواستوں سے دستبردار ہو چکے ہیں‘ لیکن سماعت تو ہوگی کہ فیصلے پر عملدرآمد کا ہنوز انتظار ہے۔
مقدمے کی کارروائی پر اظہارخیال مطلوب نہیں۔ صرف قارئین کو یہ یاددہانی کرنا۔ زیرخیال ہے کہ فیض آباد دھرنے کا جھرنا ایک مشہور چشمہ ہی سے پھوٹا تھا جو اب خشک ہو چکا ہے۔ چشمے کی تہہ میں اب پانی نہیں چمکتا۔ نمک کی سوکھی پپیڑیاں دمک دکھاتی ہیں۔
اس طرح ہی ہوتا ہے اس طرح کے چشموں میں
ماہرین چشمیات بتاتے ہیں کہ اسی دھرنے کے جھرنے نے جو شگاف پیدا کیا‘ اس سے ازاں بعد یعنی رواں سال 9 مئی کا آتشیں فوارا پھوٹ نکلا تھا۔ جی!

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...