اے پی سی۔۔کا بیانیہ دم توڑ گیا
موجود ہ دور کی سب سے بڑی اپوزیشن جو ۳۵ برس تک ایک دوسرے کے مدمقابل اقتدار پر براجمان رہی اور آج یہ دونوں سیاسی کزن بننے کا ڈرامہ کر رہے ہیں ایسا ممکن ہی نہیں کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی ایک پیج پر رہتے ہوئے سیاست کر سکیں ۹۰ کی دہائی سے یہ دونوں جماعتیں اپنا سیاسی منجن فروخت کر کے غریب عوام کے جذبات کا جنازہ نکالتی رہی ہیں اور آج ایک بار پھر یہ دونوں جماعتیں غریب کے مسائل پر اپنی ذات کی جنگ لڑ رہی ہیں دو سال میں یہ دونوں جماعتیں موجود حکومت کے خلاف کئی محاذ گرم کر چکی ہیں مگر ہر محاذ پر ناکامی ان کا مقدار رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہونے والی اے پی سی ایک بار پھر ناکام ثابت ہوئی ہے جس کی وجہ صرف یکجہتی کا فقدان ہی نہیں بلکہ نیتوں کا بھی فقدان ہے جو لوگ ۳۵ برس سے ایک دوسرے کے سخت حریف رہے ہوں جو ذاتی مفاد پر سیاست کرتے رہے ہوں وہ آپس میں مل بیٹھ کر کیا فیصلے کر سکتے ہیں ماضی اور حال کی دونوں اے پی سی کا جائزہ لیں تو غریب عوام کے مسائل پر کوئی تحریک نہیں چلائی گئی ۔آ پ نے کبھی غور کیا ہے کہ ان مفاد پرست ٹولے کا احتجاج بھی موسم کی مناسبت سے طے کیا جاتا ہے کیوں کہ ٹھنڈے پُرسکون محلوں میں زندگی گزارنے والے یہ سیاستدان سڑکوں پر کیسے گرمی سردی کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔احتجاج کے لئے بھی ان کو اپنی مرضی کا موسم مہیا ہونا چاہیئے۔ غور کریں کہ مریم بی بی، بلاول زرداری ،مولانا صاحب کبھی ایک گھنٹے کے لئے بھی گرمی کی شدت میں بغیر سائے کے احتجاج کرتے دکھائی دیئے ہیں کبھی ان جماعتوں کے لیڈر غریب عوام کے مسائل پر ایک دن بھی بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں کبھی مریم بی بی، بلاول زرداری دھوپ کی شدت میں لگی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوئے ہیں ۔اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ ان کو غریب عوام کی کتنی فکر لاحق ہے کہ خود تو یہ حضرات جن میں خان صاحب بھی شامل ہیں احتجاج کے لئے
لاکھوں روپے خرچ کر کے اپنے لئے کنٹینر بنواتے ہیں اور ہزاروں کی تعدادمیں غریب عوام کو سخت دھوپ سخت ترین سردی اور برسات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے یہاں تک کہ اگر یہ احتجاج چند روز جاری رہے تو مخیر حضرات سے کھانے پینے کی فرمائش کی جاتی ہے ۔یعنی سڑکوں پر ذاتی مفادات کا احتجاج ہو یا پارلیمنٹ میں حکمرانی کا خواب ہو ہر جگہ ان حکمرانوں کو اپنا ذاتی مفاد عزیز ہوتا ہے ۔ایک اور جانب غور کریں یہ مفاد پر ست ٹولہ اسمبلیوں سے استعفے بھی دینے سے خوف محسوس کرتا ہے کیوں کہ پارلیمنٹ میں یہ لوگ عوامی مسائل کو حل کرنے کے لئے نہیں بیٹھے بلکہ اس ملک و قوم کے پیسے پر یہ لوگ مزے کرنے مراعات حاصل کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں موجود رہنا چاہتے ہیں ۔بلاول زرداری سے استعفوں کا ذکر کریں تو ان کو جمہوریت بچانے کا درد اُٹھ جاتا ہے جبکہ سندھ اور خاص کر پاکستان کے معاشی حب کراچی شہر کا اس جمہوریت نے بیڑا غرق کر دیا ہے ۔مشرف دور میں جب یہ شہر کراچی ترقی کی جانب گامزن ہورہا تھا تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس شہر کی ترقی کی بدولت پورا ملک ترقی کی جانب گامزن ہوجائے گا ۔مگر افسوس کہ 2008 میں جب پیپلزپارٹی ملک کے اقتدار پر براجمان ہوئی تو اس شہر کی ترقی و خوشحالی کو تالے لگ گئے آزاد بلدیاتی نظام کو ہائی جیک کر کے غریب عوام کے مسائل میں اضافہ کر دیا گیا حالیہ برسات میں پورا کراچی شہر ڈوب گیا مگر بلاول زراری اور زرداری صاحب کسی گلی محلے میں عوام کے مسائل پر کھڑے نظر نہیں آئے مگر ناکام ہونے والی اے پی سی میںبلاول میزبانی اور سابق صدر آصف زرداری ویڈیولنک کے ذریعے خطاب میں سب سے آگے نظر آئے اس ذاتی مفادات کے رویے نے ہی ملک و قوم کو مسائل کا گڑھ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔بارہ سال پہلے ایک اٹھارویں تر میم پیش کر کے زرداری صاحب نے کیا ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کر دیا ہے موٹروے میٹروبس اورینج لائن ٹرین چلا کر کیا میاں صاحب نے جاپان کو معاشی شکست دے دی ہے نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ بد قسمتی سے نااہل کرپٹ حکمرانوں کی بادشاہی میں وطن عزیز معاشی طور پربنگلہ دیش نیپال سے بھی کمزور بنا دیاگیا ۔کوئی دو رائے نہیں کہ پچھلے دو سال میں خان صاحب کے اقتدار نے غریب عوام کی چیخیں نکالنے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑی بجلی گیس پیڑول سمیت اشیائے سرف کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کیا گیا ہے روزگار کی فراہمی کے دعوے بے روزگاری کی جانب گامزن ہو گئے موجودہ حکومت کے وزراء کام کم اور دعوے زیادہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں ہر وزیر اپنی وزرات کی کار کردگی عوام کے سامنے پیش کرنے کے بجائے کرپشن احتساب کا راگ الاپتا دکھائی دیتا ہے ۔یہ بات طے ہے کہ تحریک انصاف کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے بیانیئے کی بنیاد پر اقتدار پر براجمان ہوئی ہے اگر خان صاحب اپنے بیانیئے کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے تو قوم ان کو اگلے انتخابات میں مکمل مسترد کر دے گی ساتھ ہی وزیر اعظم صاحب نے اس غریب قوم سے ان کی زندگیوں میں خوشحالی لانے کے دعوے کیئے اس قوم کو جو نیا پاکستان ریاست مدینہ کا خواب دکھایا جس کو پورا کرنا بھی خان صاحب کی اولین ذمہ داری ہے ۔جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی کا تعلق ہے تو یہ اے پی سی ایک بار پھر دم توڑ گئی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ معزز اداروں کے خلاف تقریر یں ہیں ۔ ملک اس وقت معاشی بحران میں مبتلا ہے کورونا نے غریب کو سڑک پر کھڑا کر دیا ہے بے روزگاری کا طوفان بڑھتا چلا جارہا ہے۔کورونا کی سختی میں سندھ حکومت عوام کو ریلیف فراہم نہیں کر سکی صرف گھروں میں محصور کرنے کے راگ چیئر مین پیپلزپارٹی اور وزیر اعلی سندھ الاپتے رہے برسات نے پیپلزپارٹی کابد نما چہرہ پوری قوم کے سامنے بے نقاب کر دیا گیا آج پورا ملک مسائل کی زد میں مبتلا ہے تو اپوزیشن ناکام اے پی سی کے ذریعے اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے جس کا نقصان اپوزیشن کو ہی اُٹھانا پڑ سکتا ہے لہذا اپوزیشن عوامی مسائل پر حکومت پر دبائو بڑھے ناکہ کرپشن اور احتساب کے عمل میں روکاٹ ڈالنے کے لئے ایک بار پھر جمہوریت کو نقصان پہنچائے۔