یہ ملاقات اِک بہانہ ہے
20ستمبر کی کثیر جماعتی کانفرنس میں میاں نوازشریف کا خطاب اس لیے اہمیت اختیار کر گیا کہ اس میں وہ کچھ موجود تھا جو پاک فوج کے خلاف توپیں تانے رکھنے والوں کو سوٹ کرتا ہے۔ بھارتی اخبارات اور اس کے حکمران پاکستان اور فوج کے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد پراپیگنڈا کرتے ہیں، اسے اس خطاب سے فوج اور پاکستان کے خلاف یاوہ گوئی کی بنیاد مل گئی۔ میاں صاحب نے یہ سب دانستہ تو نہیں کیا ہوگا مگر ان کو احساس تو ہونا چاہیے تھا کہ وہ کہہ رہے ہیں کس موقع پر اور کس کے بارے کہہ رہے ہیں۔ایک بھارتی اخبار کی ہیڈ لائن تھی ،نواز شریف نے اپنی فوج پر حملہ کردیا۔
جی ایچ کیو میں سیاست دانوں کے جانے اور ملاقاتوں سے کون آگاہ نہیں ہے مگر ان ملاقاتوں میں کیا ہوتا ہے اس کا علم انہی کو ہوتا ہے جو ملاقات کرتے ہیں اور کبھی تو رازداری ایسی کہ جو سنا ہوتا ہے وہ وہیں دفن سمجھیے۔ ایسی ہی ایک ملاقات میاں نوازشریف کے گرما گرم خطاب سے چار روز پہلے ہو چکی تھی جس میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت موجود تھی۔ شہبازشریف، خواجہ آصف، احسن اقبال اور بلاول بھٹو کے علاوہ دیگر پارٹیوں کے لوگ بھی موجود تھے۔ اس ملاقات میں گلگت کو صوبے کا درجہ دینے کیلئے پارلیمانی پارٹیوں کی مشاورت اور معاونت درکار تھی۔ اسی ملاقات میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے باور کرایاتھا کہ پاک فوج کا سیاسی معاملات سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ فوج کو سیاست میں ملوث نہ کیا جائے ۔ بائیس کے بائیس لوگوں نے اسلام آباد شہر اقتدار کے جڑواں شہر پنڈی میں ہونیوالی ملاقات کی کسی کو بھنک پڑنے اور ہوا نہیں لگنے دی۔ تاآنکہ میاں نوازشریف کی اشتعال انگیز تقریر اور اسکے بعد متعدد واقعات کے رونما ہونے کے بعد پارٹی کے رہنمائوں کی جی ایچ کیوں میں اس ملاقات کے علاوہ بھی کئی ملاقاتوں کا انکشاف ہونے لگا۔کیا یہ ممکن ہے میاں نوازشریف کو اپنے نفسِ ناطقہ بھائی اور انکے ناک کا بال خواجہ آصف اور احسن اقبال کی جی ایچ کیو یاترا کا علم نہ ہو۔ اس ملاقات جس کا ایجنڈا گلگت بلتستان کو صوبہ بنا نے پر مشاورت ہوئی تھی اس میں سیاسی امور پر بھی بات ہوئی۔ مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر شہبازشریف ہیں دوسرے حضرات کیوں گئے۔ وہاں سیاست پر باتیں ہوئیں اور خواجہ صاحب سے جنرل باجوہ کا مکالمہ کس سیاق سباق میں ہوا ہوگا اس کا اندازہ کرنے میں کسی راکٹ سائنس اور دانش کی ضرورت نہیں ہے۔ آرمی چیف نے کہا تھا کہ الیکشن کے روز رات کو آپ کا فون آیا تھا کہ آپ کو ہرایا جا رہا ہے اور حتمی نتائج آنے پر جیت گئے تھے۔ خواجہ صاحب کی زہر میں بجھی ہوئی تقریریں گواہ ہیں ان میں پارلیمان میں کی گئی تقریریںشامل ہیں ۔ نفرتوں کے پہاڑ پر کھڑے ہو کر فوج کے خلاف باتیں کرنے والے کو ذرا سی تپش محسوس ہوئی تو بھاگم بھاگ فوج کے چیف ہی سے رابطہ کیا اور پھر خواجہ صاحب نے اعتراف بھی کیا ہے کہ رات دو بجے انکی فون پر جنرل باجوہ سے بات ہوئی تھی۔
ایک اور ملاقات کا اعتراف سابق گورنر سندھ اور میاں نوازشریف اور مریم نوازکے پُرجوش ساتھی زبیر عمر نے بھی ’پائے ماندن نہ جائے رفتن‘ کی صورت حال پیش آنے پر کیا ہے۔ جب مریم نواز یہ کہہ رہی تھیں کہ سیاستدانوں کو جی ایچ کیو نہیں جانا چاہیے تھا اور فوج کو بھی نہیں چاہیے کہ سیاستدانوں کو بلائے۔ جو معاملات ہیں پارلیمنٹ لا کر مشاورت کی جائے۔ اس موقع پر سوال کرنے پر انہوں نے کہا کہ ان کا کوئی نمائندہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے نہیں ملا۔ اس بیان کے بعد جس میں محترمہ فوج اورسیاستدانوں کو بھاشن دے رہی تھیں اور کسی نمائندے کی آرمی چیف سے ملاقات سے انکاری تھیں اسکے چند ساعتوں بعد ڈائریکٹر جنرل آئی ایس بی آر میجر جنرل بابر افتخار کا ایک ٹی وی انٹرویوسامنے آ گیا جس میں کہا گیا:۔"محمد زبیر صاحب کی آرمی چیف سے دو مرتبہ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ایک بار اگست 2020ء کے آخری ہفتہ میں اور دوسری بار سات ستمبر کو ملاقات ہوئی جس میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے۔ دونوں ملاقاتیں ان کی درخواست پر ہی ہوئیں۔دونوں ملاقاتوں میں انہوں نے نواز شریف صاحب اور مریم نواز شریف صاحبہ کے حوالے سے ہی بات چیت کی۔اس ملاقات کا بھی زبیر عمر نے اعتراف کیا مگر اصل معاملات کی پردہ پوشی کر رہے ہیں کہ وہ جنرل صاحب کے ساتھ کھانا کھانے گئے تھے۔ مریم اور نوازشریف کے معاملات پر بات نہیں ہوئی۔ جی ایچ کیو میںملاقاتیں کھانوں اور چائے پر ہوتی ہیں یا ملاقاتوں کے دوران چائے اور کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ نیا نہیں پرانا ہے۔
پیار کا سلسلہ پرانا ہے
یہ ملاقات تو اِک بہانہ ہے