عدِم برداشت اور اذیت پسندی
پانچ یا چھ فٹ کا آدمی اور اُس کی زیادہ سے زیادہ ستر پچھتر سالہ زندگی ۔۔۔جس کے بعد اُس نے خاک ہو جانا ہے اورچند سال بعد اُس خاک کے ڈھیر سے صرف ایک خوفناک کھوپٹری برآمد ہوتی ہے۔ انسان کی اتنی بساط نہیں ہے۔ ایک فانی جسم ہے جس پر ایک حسین چہرہ ایستادہ ہوتا ہے۔ یہ حسین چہرہ بھی ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا ہے۔ انسان نے اپنے لیئے اپنے تن سے زیادہ آسائشیں میسر کر لی ہیں۔ اللہ نے انسان کو فانی جسم کے ساتھ ایک حیرت انگیز دماغ دے کر پیدا کیا ہے۔ اس دنیا میں جو بھی ہلچل یا طوفانِ بدتمیزی ہے۔ وہ اسیِ دماغ کی وجہ سے ہے۔ دماغ اپنے دل کا تابع رہتا ہے۔ دل جس شے پر آجائے، دماغ بھی اُسی راستے پر چل پڑتا ہے۔ دل اور دماغ یہ سب اپنے فانی جسم کے لئیے کرتا ہے۔ اکیسویں صدی میں برقی دماغ نے تہذیبوں کو توڑ پھوڑ دیا ہے۔ نسلوں اور خاندانوں میں دراڑیں ڈالی ہے۔ وہ دن قریب ہے جب تمام نسلوں کا ادغام ہو گا۔ انسان مخلوط النسل ہو جائے گااور اُس کی اصل نسل تک پہنچنا ہی سب سے بڑی ریسرچ بن جائے گی۔ سائنس ثابت کر چکی ہے کہ کزن میرج میں بچے ذہنی معذور ہو جاتے ہیں اور اُن کی صورتیں واجبی یا روایتی ہوتی ہیں۔ خاندان سے باہر شادیوں سے ذہین اور خوبصورت نسلیں پیدا ہوتی ہیں۔ دو مختلف خاندانوں کے اختلاط سے ذہین، حسین، متحرک اور توانا نسل جنم لیتی ہے لیکن اسکا اثر نئی نسل کے مزاج، فطرت اور اخلاق پر بھی پڑتا ہے۔ جدید عہد کی نسل تہذیب اور اخلاقیات کی بساط لپیٹ رہی ہے۔ اُس کا تعلق کزن میرج سے بھی ہے اور دو مختلف خاندانوں یا نسل کے ملاپ سے بھی ہے۔ غور کریں کہ لوگوں میں عدمِ برداشت اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ بھائی بھائی کا خون کر دیتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بھائی کے بچے نے دوسرے بھائی کے گھر کے آگے پیشاب کر دیا جس پر بھائی نے اپنے سگے بھائی اور بھتیجوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ ان سگے رشتوں کی شقی القلبی کی مثالوں سے پورا پاکستان بھرا پڑا ہے جن کی وجہ سے یہ رشتے بھی عدِم برداشت اور ریاکاری کی بھینٹ چڑھتے جا رہے ہیں۔ آج جب سہولتوں کی بارشیں برس رہی ہیں۔ لوگوں کو تانگوں بسوں پر سفرنہیں کرنا پڑتا۔ آ ج تقریباََ ملک میں نوے فیصد لوگوںکی ذاتی سواریاں ہیں۔ موٹرسائیکلوں، رکشوں سے لیکر گاڑیوں تک آسائشیں میسر ہیں۔ ان میں سے لاکھوں لوگوں کے پاس لاکھوں سے کروڑوں روپے تک کی گاڑیاں ہیں۔ گائوں دیہات میں بیس لاکھ روپے کا گھر بن جاتا ہے اور شہر میں سوا۔ڈیڑھ کروڑ کا اچھا خاصا گھر بن جاتا ہے۔ لاکھوں پاکستانیوں کے پاس بیش قیمت گاڑیاں ہیں۔آدھے لاہور کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں ہیں لیکن آپ دیکھیں کہ اُن میں عدِم برداشت نہیں ہے۔ ایک عام سائیکل، موٹرسائیکل سوار یا چھکڑے والا عدمِ برداشت اور بد ترین اخلاق کی بہترین مثالیں ہیں۔ ایک لمحے کا دسواں حصہ بھی صبر نہیں کرتے اور نتیجہ بھیانک حادثے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اسکے بعد جو کچھ ہو تا ہے۔ وہ ناقابل بیان ہے۔ سائیکل، موٹر سائیکل، چنگ چی، رکشہ، ریڑھا، ویگن او ر کرائے کی گاڑیاں اتنی بے رحمی اور سفاکی سے چلائی جاتی ہیں کہ انسان کا دل اُچھل کر حلق میں آجاتا ہے۔ حادثات کی سب سے بڑی وجہ موٹر سائیکلیں ہیں۔ یہ لوگ اس طرح چلاتے ہیں جیسے موت کے کنویں میں کرتب دکھارہے ہوں۔ اچانک مخالف سمت سے تیزی سے نکل کر زن سے آگے سے گزر جاتے ہیں۔ ان کے اور موت کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہوتا۔ یہ سڑک کے رائیٹ سائیڈ یا پھر سڑک کے بیچ میں کرتب دکھا تے ہیں۔ ان کی وجہ سے بدترین حادثات ہوتے ہیں۔ یہ لوگ خود تو مر جاتے ہیں یا ایکسیڈینٹ کے نتیجے میں معذور ہو جاتے ہیں لیکن ساتھ میں جس گاڑی کی زد میں آتے ہیں۔ گاڑی کا بھی ایکسیڈینٹ ہو جاتا ہے اور موٹر سائیکل والے کی عُجلت، غلطی، جہالت کی وجہ سے گاڑی والے کی نئی کار برباد ہو جاتی ہے اور لاکھ دو لاکھ روپے مرمت پر لگ جاتے ہیں۔ اگر موٹر سائیکل یا کسی بھی آدمی کی غلطی کی وجہ سے ایکسیڈینٹ ہو بچ جانیوالے کو الزام دیا جاتاہے۔ پولیس کیس بن جانے کے بعد جان عذاب میں آ جاتی ہے۔ گاڑی والا حادثے کی وجہ سے اعصابی طور پر مجروح ہو جاتا ہے۔ اُسکا کوئی قصور نہیں ہوتا مگر وہ مالی اور اعصابی طور پر شدید نقصان اٹھاتا ہے۔ بریک لگانے کی صورت میں گاڑی پیچھے سے بھی تباہ ہو جاتی ہے کیونکہ پیچھے بھی گاڑیاں برق رفتاری سے آ رہی ہوتی ہیں۔ پاکستان میںحادثات کی سب سے بڑی وجہ موٹرسائیکلیں اور چنگ چی ہیں۔ اسکے علاوہ پاکستانیوں کی اذیت پسندی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ چنگھاڑتے ہوئے ہارن ہمارے اعصاب برباد کر رہے ہیں۔