بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
زبان زدعام موضوع مہنگائی ہے۔ ملامت کا بوجھ حکومت پر پڑتا ہے۔ ادویات مہنگی‘ یوٹیلٹی سٹور پر رعاعتیں ختم‘ عوام کہاں جائیں؟ پاکستان میں ادویات کی قیمتیں پہلے ہی بھارت سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ 22 کروڑ کی آبادی ادویات کی بڑی مارکیٹ ہے۔ میڈیکل سٹورز پر دودھ دہی کی دکانوں جیسا رش ہوتا ہے۔ جو کمپنیاں ادویات بازار میں نہیں لاتیں‘ ان کے لائسنس منسوخ کرکے نئی کمپنیوں کو دیئے جائیں۔ چینی کی قیمت ملکی تاریخ میں بلند ترین سطح پر ہے۔ آٹے کی قیمت ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ نیپرا نے بجلی ایک روپیہ 62 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری دی ہے۔ بازار اور یوٹیلٹی سٹورز کی قیمتوں میں فرق نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ کم آمدنی والے طبقے کیلئے یہ سٹورز ایک نعمت ہوا کرتے تھے۔ ہماری سیاست فروعیات میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ خفیہ ملاقاتیں‘ خفیہ نہ رہیں‘ ملاقاتیں کرنے والے خود ہی مخبر بن جائیں تو کوئی کیا کرے۔ جدید طرز سیاست ایک دوسرے کے پوتڑے کھولنے کا نام ہے۔ خفیہ ملاقاتی کرنے والوں کی قیادت تو شیخ رشید کے ہاتھ ہے۔ جب وہ ڈیٹا لیک کریںگے گویا شیخ صاحب وکی لیک سے کم نہیں۔ خفیہ ملاقاتیں ایک ہوں یا زیادہ‘ سوال تو تب ہو جب کوئی ملک دشمن سے ملا ہو۔ فوج بھی اپنی ملنے والے بھی پاکستانی‘ فوج کی سیاسی جماعت کی نہیں 22 کروڑ عوام کی ہے۔ فوج سے ملاقات کرنا کسی آئینی شق یا قرآن حدیث کی خلاف ورزی تو نہیں۔ سانپ نکل جائے تو لکیر پیٹنے سے کیا فائدہ؟ یہ تو نوازشریف کا ستارہ ہے جو انہیں پنجرے سے نکال کر آزاد کر دیتا ہے۔ مشرف نے پنجرے سے نکل کر سرور پیلس جدہ میں داخل ہوئے تھے اور اب اڈیالہ کے پنجرے سے نقل کر لندن کی ٹھنڈی فضائوں میں چہل قدمی کرتے اور کافی کا مزہ لیتے ہیں۔ لوگ صحت یابی کی دعائیں کرتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ فلاں چارپائی سے جڑ جائے اور بیساکھیاں اس کا مقدر بن جائیں۔ کرپشن کی کہانیاں شریفوں‘ زرداریوں کے گرد گھوم رہی ہیں حالانکہ ایک سے بڑھ کرایک کرپٹ موجود ہے۔ آٹے اور چینی کی چابیاں کن کے ہاتھوں میں ہیں۔ ٹماٹر اور ادرک سے کون امیر تر ہوتا ہے۔ توقعات اور امید ٹوٹنے لگے تو لوگوں کی بیزاری صاف دکھائی دینے لگتی ہے۔ سزائیں ہوئیں نہ جائیدادیں ضبط ہوئیں۔ احتساب احتساب سن کر کان پک گئے۔ آلو‘ گوشت کون ہر روز کھا سکتا ہے۔ (ن) لیگیے اور پپلیے پیشیوں‘ مقدموں اور زندان خانوں کے عادی ہو گئے۔ جھجک اور خوف نہ رہے تو کوئی بھی پہلے سے زیادہ نڈر اور بے باک ہو جاتا ہے۔ اصل سیاسی جماعتیں (ن)‘ پی پی اور پی ٹی آئی ہیں جن کا ووٹ بنک ہے۔ باقی ڈمی اخبارات کی طرح ہیں۔ چنگ چی پارٹیاں بھی ساتھ بیٹھ جائیں تو گیارہ پارٹی اے پی سی کا اعلان ہو جاتا ہے حالانکہ اے پی سی بلاول‘ شہباز اور فضل الرحمن کے مابین تھی اردگرد تو حواری تھے۔ سیاستدان کی عوامی بنیادیں نہ ہوں تو اس کی دیوار کسی طوفان سے گر بھی سکتی ہے۔ پارلیمنٹ مؤثر دکھائی نہیں دیتی۔ حاکم کے نزدیک نوازشریف مایوس اور کھیل سے باہر ہو چکے ہیں۔ حاکم کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں۔ حاکم کی نظر میں (ن) یا (ش) دونوں نہیں چل سکتیں۔ حکمران کا کہنا ہے اپوزیشن استعفے دے۔الیکشن کرا دوں گا۔ اپوزیشن صرف احتساب روکنے کا ایجنڈا چاہتی ہے۔ سلیکٹڈ احتساب باعث پریشانی ہے۔ لاکھوں لوگ بنک ڈیفالٹر ہیں۔ بجلی‘ گیس چور اور بلوں کے ڈیفالٹر ہیں۔ اپوزیشن کی کوئی جماعت استعفے دینے کیلئے تیار نہیں۔ شیخ رشید چاہتے ہیں اپوزیشن کچھ کرے ملک کے اصل مسئلے کی طرف کوئی نہیں آتا۔ وہ استحصال ہے۔ بھٹو نے استحصال کو لیکر ہی نیشنلائزیشن کی تھی اور اب عمران خان کی للکار سامنے آئی ہے کہ غریب ملکوں کا استحصال بند ہونا چاہئے۔ وائٹ کالر جرائم کے ذریعے ہر سال ایک کھرب ڈالر غریب ملکوں سے امیر ملکوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ زیادہ تر دولت دنیا کے 26 امیر ترین افراد کے ہاتھوں میں ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں ہر سال 600 ارب ڈالر کا ٹیکس چوری کرتی ہیں۔ اس وقت ملک میں مقامی صنعتوں کیساتھ ساتھ غیرملکی کمپنیاں بھی کاروبار کر رہی ہیں۔ انہیں صرف مخصوص مصنوعات بنانے یا درآمد کرنے کے حقوق حاصل ہیں۔ ہر حکومت کو ٹیکس ریونیو بڑھانے کی فکر دامن گیر رہی۔ ٹیکس اخراجات اور غیر پیداواری اخراجات 30 فیصد بھی کم ہو جائیں تو مالیاتی خسارہ 40 سے 50 فیصد کم ہو سکتا ہے۔