افغان مصالحتی عمل
9/11 کے بعد امریکہ نے بھی تاریخی غلطی کی۔ ویسے کچھ قصور مُلا عمر کا بھی تھا۔ ہزاروں آدمیوں کی موت نے بُش کو غصے سے نیم پاگل کر دیا تھا۔ اس نے افغان حکومت سے اسامہ بن لادن مانگا۔ اسے امریکہ کے حوالے کرنا افغان روایات کے خلاف تھا۔ دوسرا مطالبہ مانا جا سکتا تھا۔ اسے ملک بدر کر دیا جائے۔ اس طرح لاکھوں لوگ مرنے سے بچ جاتے ۔ مُلا عمر معزول ہو کر گمنام جگہ پر کسمپرسی کی حالت میں مرا ۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اسامہ بن لادن بھی نہ بچ سکا۔ امریکی فوجوں نے اسے ایبٹ آبادمیں مار دیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ملا عمرکو معزول کرنے کے بعد امریکی فوجیں اسی وقت واپس چلی جاتیں۔ بُش جونیئر نے دو کٹھ پتلی حکمران کھڑے کر کے افغانستان پر تسلط جمانے کی کوشش کی۔ پہلے الیکشن کا ڈھونگ رچا کے کرزئی کو صدر بنایا گیا۔ اب اشرف غنی کے نام قرعہ نکلا ہے۔ دُنیا کی بہت بڑی جمہوریت نے فراڈ الیکشن کروا کے جمہوریت کے ساتھ جوکھلواڑ کیا ہے وہ باعثِ شرم ہے۔ ایک چھوٹے سے ملک میں چھ ماہ تک الیکشن نتائج روکنا ایک مذاق سے کم نہ تھا It was a Guided victory کٹھ پتلی کو ویسے ہی اقتدار سونپا جا سکتا تھا۔ تمام دنیا جانتی ہے کہ اشرف غنی نام نہاد صدر ہے۔
اصل طاقت امریکہ کے پاس ہے وہی تمام داخلی اور خارجہ پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔ ان کی شہہ پر ہی ہندوستان کو (FOOT HOLD) دیا گیا ہے۔ مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ پالیسی بُری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ بچے کھچے ہندو ایجنٹوں کا جو حشر طالبان کے ہاتھوں ہونے والا ہے وہ تمام دنیا دیکھے گی۔
افغان طالبان کو چاہئے کہ وہ معروضی حالات دیکھیں اور امن معاہدے پر دستخط کر دیں۔ اس طرح امریکہ کو اپنی فوجیں نکالنے کا ایک راستہ مل جائے گا۔ گو امریکی عزائم ناکام ہوئے ہیں۔ لیکن یہ کہنا کہ اسے مکمل شکست ہوئی ہے۔ شاید درست نہ ہو گا ۔ یہ دراصل (NO WIN SITUATION) ہے۔افغان طالبان کے لئے مسرت کی بات یہ ہے کہ وہ پھر سے اپنی مرضی کی حکومت بنا سکیں گے۔ امریکی فوجوں کے سہارے کے بغیر اشرف غنی کے لئے افغانستان میں حکومت کرنا تو کجا ٹھہرنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ یہ اور کرزئی ونوں ایک ساتھ دوڑیں گے۔ معاہدے کے بعد افغان آرمی تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی۔ اکثریت گھر لوٹ جائے گی یا طالبان کی کمان میں چلی جائے گی۔ عبداللہ عبداللہ کامعاملہ قدرے مختلف تھا۔ وہ اپنے علاقے میں چلا جائے گا۔ سارا شمال فارسی بولتا ہے اور ایران کے ساتھ ان کا بارڈر لگتا ہے۔ پچھلی مرتبہ طالبان کو انہیں مطیع کرنے میں بڑی دشواری پیش آئی۔ اس مرتبہ بھی ARMED CONFLICT ہو سکتا ہے۔ پھر وارلارڈز اپنا حصہ مانگیں گے۔ اس سے خانہ جنگی کاامکان ہے۔ گویا مرکز گریز قوتوں کو کنٹرول کرنا خاصا مشکل ہو گا۔
البتہ ایک بات کی امریکہ کو تسلی رکھنا چاہئے۔ اس مرتبہ طالبان داعش یا دیگر (RADICAL GROUPS) کو پناہ نہیں دیں گے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو (once Bitten Twice shy) والا معاملہ ہے۔ طالبان کا اس قدرجانی و مالی نقصان ہو چکا ہے کہ وہ بے مقصد ایک دفعہ پھر بلائے آسمانی کو گلے لگانا پسند نہیں کریں گے۔ پھر اس طرح ان کی خودمختاری پر بھی حرف آئے گا۔
ویسے بھی طالبان کی خواہش ہو گی کہ امریکہ سے تعلقات بناکر رکھیں۔ انہیںحکومت چلانے کے لئے مالی مد درکار ہو گی۔ وہ صرف امریکہ دے سکتا ہے۔ جہاں امریکہ ہر سال قریباً سو ارب ڈالر خرچ کرتا رہا ہے۔ اس کے لئے چند ارب ڈالر کی امداد دینا نسبتاً آسان ہو گا۔ اس طرح اس کے مفادات کا تحفظ بھی ہوتا رہے گا۔
انگریزی زبان کا محاورہ ہے:
(HE WHO PAYS THE PIPER, HAS ALSO THE RIGHT TO CALL FOR THE TUNE)
………………… (ختم شد)