شبِ غم کی سحر نہیں ہوتی
سیّدنا ابو مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے خطبہ دیا اور فرمایا یہ خلافت تمہارے پاس رہے گی اور تم ہی اس کے مالک ہوگے۔ یہ اس وقت تک تمہارے پاس رہے گی جب تک تم غیر شرعی کام نہیں کرو گے ۔ جب تم نے غیر شرعی کام کیے تو اللہ تعالیٰ برے لوگوں کو تمھارے خلاف کھڑا کر دے گااور وہ تمھاری یوں چمڑی اُدھیڑیں گے جیسے چھڑی کو چھیل دیا جاتا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ زندگی کی جنگ خود لڑنی پڑتی ہے لوگ صرف مبارکباد دینے یا فاتحہ خوانی کرنے آتے ہیں ۔ ہمیں احساس ہو یا نہ ہو لیکن یہ سچ ہے کہ ہم بحیثیت مسلم اُمّہ اور خاص طور پر بحیثیت پاکستانی ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔ حکمِ خدا وندی سے چشم پوشی کر کے اسرائیل کی محبت نے مسلم ورلڈ کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں ۔ ہم یہ بھول رہے ہیں کہ اگر ہم بیت المقدس سے محروم ہوئے تو ہم شاید مدینہ کی بھی حفاظت نہیں کر سکیں گے ۔ قوموں پر مشکل وقت آتے رہتے ہیں مگر زندگی میں کبھی اللہ تم پر کڑے وقت کے لائے تو اس کا احسان سمجھ کر شکر گزار رہنا، شکوہ مت کرنا یہ نہ کر سکو تو اس سے نا امید نہ ہونا ، کفر مت کرنا، اس کا حق ادا کرنا، وقت گزرجاتا ہے رویے باقی رہتے ہیں ۔ کڑا وقت گزر جائے گا مگر تمہارا عمل باقی رہے گا۔
حضرت علی ؓ سے کسی نے پوچھا کہ جانور اور انسان میں کیا فرق ہے؟ آ پ ؓ نے فرمایا جو اپنے لیے سوچے وہ جانور ہے اور جو دوسروں کیلئے سوچے وہ انسان ہے۔ آج طلبِ زَرو اقتدارنے ہمیں انسانیت سے دور کر دیا ہے کیونکہ ہم اپنی غلطیوں کے وکیل اور دوسروں کی غلطیوں کے جج بن گئے ہیں اور جب حالات اس نہج پر پہنچ جائیں تو پھر فیصلے نہیں فاصلے بڑھتے ہیں۔ ہم معاف کرنے کی بجائے انتقام کو ترجیح دینے لگے ہیں جو قوموں کیلئے زہرِ قاتل ہے۔ہم بحیثیت مسلم اپنی زندگی میں دلوں کو جیتنے کا مقصد رکھیں اور اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ دنیا کا فاتح سکندرِ اعظم دنیا سے خالی ہاتھ ہی گیا تھا۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ رب کی طرف جانے والے تمام راستے اس کی مخلوق کے دل سے گزرتے ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنی ترجیحات کا ازسرِ نو جائزہ لے کر اپنی ذات کو منہا کر کے صرف اور صرف پاکستان ور عوام کی ترجیحات کو سرِ فہرست رکھنا ہوگا۔ قوم کن حالات سے دو چار ہے یہ اقتدار کے ایوانوں اور آل پارٹیز کانفرنسز سے نہیں بلکہ غریب کی اندھیری جھگی میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ صرف ایک رات بسر کرنے سے پتہ چلے گا۔ وزیرِ اعظم اپنی کابینہ سمیت اور اپوزیشن میں شامل جماعتیں قوم کو زبانی جمع خرچ کی بجائے ذرا یہ نسخہ آزمائیں تو یقین جانیں دردِ د ل کو افاقہ ضرور ملے گا۔
ایسا پہلے کبھی دیکھا کہ کوئی وزیر اعظم اقراری ہو کہ میری ٹیم میں ایسے کھلاڑی بھی ہیں جو اپنی طرف گول کرتے ہیں ۔ ویسے تلخ حقیقتوں کو تسلیم کرنا بھی بہادری ہے ۔ منافقت کی دوکانوں پر جتنی رونق آج ہے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی اورا ن دوکانوں پر حکومت اور اپوزیشن دونوں کی لائنیں نظر آتی ہیں ۔ ریاستِ مدینہ بنانے اور پاکستان کو پہلے کی طرح دوبارہ سنوارنے والے یہ بھول گئے ہیں کہ ہمیں آگے بڑھنے کیلئے دل سے کینہ، حسد، بغض ، تکبر اور انا کو نکالنا ہوگاکیونکہ اللہ کی خوشنودی کیلئے ان کے بندوں پر مہربان ہونا پہلا زینہ ہے اور یاد رکھیں کہ نمازیں پڑھنے سے پارسائی اور خدمتِ خلق سے رب ملتا ہے۔ دنیا یکسر تبدیل ہو گئی ہے اور انھوں نے اپنی ترجیحات پر بھرپور طریقے سے اپنا کام شروع کر رکھا ہے ۔ہماری حالت یہ ہے کہ ہم تو کشمیر کا مقدمہ بھی زبانی جمع خرچ سے جیتنے کی کوشش میں ہیں جو بالکل ناممکن نظر آتا ہے۔ کیوں کہ "لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے"۔اگر ہم دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے ضمیر کی عدالت میں جائیں تو ہمیں ضرور یہ آواز آئے گی :
نہ بزرگوں کے خوابوں کی تعبیر ہوں
نہ میں جنت سی اب کوئی تصویر ہوں
جس کو مل کر کے صدیوں سے لوٹا گیا
میں وہ اجڑی سی اک جاگیر ہوں
ہاں میں کشمیر ہوں ہاں میں کشمیر ہوں
"Colors of the Leaf changes with the Time, same is with Humans"
ہم نے شاید بھلا دیا ہے کہ دنیا کا لاک ڈائون بتدریج ختم ہو رہا ہے مگر ہماری کشمیری بہن ، بیٹیاں ، مائیں ، معصوم بچے اور بزرگ ابھی تک ہماری راہ تک رہے ہیں اور شاید ہماری راہیں تکتے تکتے اب تو ان کی امیدوں کے ساتھ آنکھیں بھی پتھرا گئی ہوں ۔ تکمیلِ پاکستان کیلئے خون دینے والوں کیلئے بھی اپوزیشن اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرے اور میریٹ ہوٹل میں زرداری اور فضل الرحمن کے ساتھ لیڈر آف دی اپوزیشن اسلام آباد سے کم از کم ایک بیان ہی جاری کر دیں ۔ "میرے کشمیریو گھبرانا نہیں ہے"
پچھلے ہفتے کراچی جانے کا شرف حاصل ہوا۔ جگہ جگہ City of Lightsکے بورڈ آویزاں تھے مگر لائیٹ کی آنکھ مچولی نے تین دن میں جینا محال کر دیا۔ کراچی والوں کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں دیکھی اگر کچھ دیکھا تو گندگی کے ڈھیر اور ٹوٹی سڑکو ں پر دھول اڑاتی قدرتی ایئر کنڈیشنڈ بسیں کراچی والوں کی بے بسی کا مذاق اُڑاتے دیکھی ہیں۔میری طبیعت بڑی عجیب ہے شاید میری مینو فیکچرنگ ہی پروردگار نے ایسے کی ہے ۔ میں یہ ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر میں کراچی کا رہائشی ہوتا تو لیاری کے گندے نالے میں یاتو میں نے یا کراچی الیکٹرک کمپنی کے کرتا دھرتائوں نے ضرور ہونا تھا۔
میری وزیر اعظم اور صاحب اقتدار و اختیار سے دست بستہ عرض ہے کہ کراچی کو زندہ رکھنے کیلئے تمام حدیںعبور کر جائیں اس لیے کہ کراچی زندہ رہے گا تو پاکستان خوشحال ہوگا۔ کراچی کے لوگ کیسے زندہ ہیں اس کا اندازہ لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد میں بیٹھ کر نہیں لگایا جا سکتا۔ کاش وزیر اعظم کچھ کیبنٹ میٹنگز کراچی میں کریں اور کراچی والوں کو محبت کا پیغام ضرور دیں ۔ جہاں کے گلی کوچوں سے ایک دھیمی سی آواز آرہی ہے کہ:
اک ستم اور میری جاں ابھی جاں باقی ہے
کراچی کے چہرے پر جمی دھول کو صاف کرنے کیلئے اپنا رول ضرور ادا کریں اور چھوٹے چھوٹے گھروں میں دئیے روشن کرنے کیلئے رول ادا کریں ۔ اگر ایسا نہ کیا تو اللہ کی قسم یہ اقتدار روز محشر کہیں حکمرانوں کے گلے کا طوق نہ بن جائے۔ میں کسی صورت مایوسی کا قائل نہیں ہوں بلکہ یہ سمجھتا ہوں کہ مشکل وقت دستک دے توخوف زدہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ آگے بڑھ کر کر دروازہ کھولنا چاہیے کیونکہ کامیابی ہمیشہ مشکل کا بھیس بدل کر آتی ہے۔ میرا ایمان کامل ہے کہ"آسانیاں دو ، آسانیاں ملیں گی" اور جناب واصف علی واصف ؒمرحوم نے کیا خوب کہا ہے کہ "پاکستان نور ہے نور کو زوال نہیں " میرے جذبات میرے الفاظ سے بہت زیادہ ہیں بہت ہاتھ روک کر لکھتا ہوں ۔ بس صاحب اقتدار کو یہی کہنا چاہتا ہوں کہ کبھی کسی چیز کی انتہا نہ دیکھیں اور ڈریں اس وقت سے جب اپنے بچوں کو بھوک پیاس سے سسکتا ہوا دیکھ کر غریبوں کے ہاتھ کسی کے گریبانوں کی طرف بڑھنے لگیں ۔
بس کر میاں محمد بخشاموڑ قلم دا گھوڑا
ساری عمر دکھ نئیں مکدے ورقہ رہ گیا تھوڑا
اب بھی وقت ہے حکومت اور اپوزیشن سمجھ جائے پاکستان اور پاکستانی قوم کی ترجیحات کو سمجھیں اور کان لگا کر سنیں قوم کہہ رہی ہے کہ :
شبِ غم کی سحر نہیں ہوتی
ہو بھی تو میرے گھر نہیں ہوتی
زندگی تُو ہی مختصر ہو جا
شبِ غم مختصر نہیں ہوتی