پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں 1933ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ زندگی کی 60 بہاریں دیکھنے کے بعد 29 ستمبر 1993ء کو ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ آج انہیں ہم سے بچھڑے 24 برس ہوچکے‘ مگر ان کے نظریات‘ ان کی وفا کیشی کی معطر خوشبو اور جہد مسلسل کے استعارے سے ان کے مقتدی آج بھی خوشبو‘ روشنی اور راہنمائی لیتے ہیں۔ ان کا نام نظریاتی کارکنوں کے لیے نیا‘ اجنبی یا غیر مانوس نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اور اپنے نظریے سے اٹوٹ محبت رکھنے والے اس نام کی شخصیت اور کارناموں سے بخوبی واقف ہیں۔ محمد رفیق عالم(مرحوم) نے ان پر ایک کتاب غلام حیدر وائیں (شہید) عہد سے لحد تک بھی لکھی تھی۔ مذکورہ کتاب کے صفحہ 13پر وہ رقمطراز ہیں کہ ’’غلام حیدر وائیں کو مسلم لیگ سے عشق تھا اور اس کا ایک رنگ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس تنظیم کی تحریک پاکستان میں کارکردگی کے بارے میں کوئی مستند کتاب لکھی جائے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر رفیق ااحمد سے رابطہ کیا۔ انہوں نے سرفراز حسین مرزا کا ہاتھ غلام حیدر وائیں کے ہاتھ میں تھما دیا کہ ان سے کہیں۔ معاملہ چل نکلا اور سرفراز حسین مرزا نے ایک ضخیم مقالہ لکھا جو منظور ہوا اور بعدازاں شائع بھی کیا گیا۔‘‘ اس طرح غلام حیدر وائیں کے ذریعے ایم ایس ایف کی تاریخ زمانے کی گرد کی نذر ہونے سے بچ گئی۔
غلام حیدر وائیں پر یہ کتاب ایک مکمل دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے بارے مشہور ہے کہ انہوں نے عام لوگوں کو حکمرانوں سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا سکھلایا‘ وزیراعلیٰ پنجاب بنے تو وزیراعلیٰ ہائوس میں دعوتِ شیراز کا ماحول ہوتا تھا نہ کہ وہ حکمرانوں کی اس کلاس سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے گھوڑوں کے لیے اصطبل بنائے یا دیگر حربوں سے قومی خزانے اور اداروں کے لیے بوجھ بلکہ سفید ہاتھی بنے رہے۔
غلام حیدر وائیں نے اپنے سیاسی کیریر کا آغاز مقامی سیاست سے کیا اور بتدریج ترقی کرتے ہوئے پنجاب جیسے بڑے صوبے(آبادی کے لحاظ سے) کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ ایسا ہونا صرف اس لیے ممکن ہوا کہ انہوں نے مسلم لیگ کو تنظیمی صلاحیتوں سے مالا مال کر دیا تھا۔ اُنہوں نے چودھری محمد حسین چٹھہ‘ خواجہ صفدر‘ پیر ثناء اللہ بودلہ آف میاں چنوں‘ محمد ادریس جانباز‘ آصف بھلی‘ میجر جمیل ڈار‘ عزیز ظفر آزاد‘ تنصیر شاہی‘ اسلم زار‘ شیخ اسماعیل ڈار آف میاں چنوں‘ نعیم رضا ہاشمی اور چودھری محمد نواز گھمن جیسے کٹر نظریاتی مسلم لیگیوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ غلام حیدر وائیں کا تذکرہ ہو اور تحریک پاکستان‘ نظریۂ پاکستان اور تحریک پاکستان کے کارکنوں کی خدمات کے اعتراف کے لے بنائے گئے ادارے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہو گا۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کو قائم کرنے کے مقاصد میں سے ایک سیاسی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگی کارکنوں کی سیاسی تربیت اور جمہوری اقدار کی پرداخت بھی تھا۔ اُنہوں نے یہ ادارے ڈاکٹر مجید نظامی (مرحوم) کے ساتھ مل کر بنائے۔ غلام حیدر وائیں نے تحریک پاکستان کے کارکنوں کے نہ صرف کوائف کو یکجا کیا بلکہ ادارے کے لیے شاہراہِ قائداعظم پر جگہ مختص کی‘ تعمیر کے لیے ابتدائی فنڈ فراہم کیے‘ انہیں گولڈ میڈل دلوائے۔
اسی طرح ایوانِ قائداعظم(جس کا فیز1تکمیل کے آخری مرحلے میں ہے) کے لیے جوہر ٹائون میں وسیع و عریض قطعۂ اراضی فراہم کیا۔ اُنہوں نے 18اگست 1988ء کو پاکستان مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے الحمراء میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ تحریک پاکستان کے کارکنوں کو پنجاب میں ہر رہائشی سکیم میں 5فیصد کوٹہ مختص کیا جائے گا۔ اس طرح انہوں نے کہا کہ مارشل لاء دور میں نمایاں رہنے والے مسلم لیگی کارکنوں کو بھی طلائی تمغوں سے نوازا جائے گا۔(یہ باتیں موجود حکمرانوں کے لیے لائق توجہ ہیں)۔ ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم( اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت کرے) اکثر کہتے تھے کہ غلام حیدر وائیں کی لاٹری نکلی اور وہ وزیراعلیٰ بن گئے۔ یہ فقرہ ایک بین حقیقت ہے کیونکہ ہمارے ملک کی سیاست میں مضبوط سیاسی یا نظریاتی پس منظر رکھنے والا سفید پوش کارکن وزارت اور پھر وہ بھی وزارتِ اعلیٰ کا صرف خواب دیکھ سکتا ہے۔
ایسے شخص یا کارکنان کو ہماری سیاسی جماعتیں صرف جلسہ گاہ میں تقریر کرنے یا لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے ساتھ ساتھ مجبوراً رکھتی ہیں۔ ہماری سیاست میں پیسے کا عنصر پوری شد و مد کے ساتھ موجود ہے۔ ایسے میں غلام حیدر وائیں کا وزیراعلیٰ بننا یقینا ایک سیاسی معجزہ ہی کہا جاسکتا ہے یا اگر مجھے معاف کرسکتے ہیں تو ’’فاش غلطی‘‘ کیونکہ ہماری تمام سیاسی جماعتیں ایسے کارکنوں کے سر پر’’ہما‘‘ بٹھا کر انہیں سر پر چڑھانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتیں کیونکہ ایسے کارکن اُس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جو یا تو اپنا گریباں چاک کرتے ہیں یا یزداں کا… 1993ء کے عام انتخابات کی مہم میں انہیں ’’مقامی‘‘ جاگیرداروں نے (یہ صرف رعایت لفظی کے تحت لکھ رہا ہوں ورنہ ایسے عناصر وطن عزیز میں تھوک کے حساب سے مل جاتے ہیں) دن دہاڑے بہیمانہ طریقے سے ابدی نیند سلا دیا۔
ان کے واصل بحق ہونے کے بعد مسلم لیگی راہنمائوں کی لیگی کارکنوں سے مسلسل بے توجہی‘ رابطے کے فقدان‘ پارٹی ڈسپلن سے مسلسل روگردانی‘ صرف لوٹ کھسوٹ‘ نوجوان نسل کی نظریاتی امنگوں کی لاج نہ رکھنے‘ ڈرائنگ روم سیاست اور سیاسی جماعت کو اپنے کنبے تک محدود رکھنے کی سوچ نے آج مسلم لیگ کو ق‘ ج‘ ف‘ ع‘ ض اور م کی شکل میں ’’صاحب اولاد‘‘ جبکہ حقیقی کارکن کو یتیم کر رکھا ہے۔غلام حیدر وائیں کے مشن کو ان کی رفیقۂ حیات بیگم مجیدہ وائیں پورے عزم کے ساتھ سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہ پیرانہ سالی کے باوجود بھی متحرک ہیں اور کارِ خیر کے مختلف امور میں انکی معاونت غزالہ وائیں کررہی ہیں۔ شاید ایسی شخصیات کے لیے ہی شاعر نے کہہ رکھا ہے ’’اسیں مرنا ناہیں‘ گورپیا کوئی ہور‘‘ ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ علیین مقام پر فائز فرمائے۔آمین
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024