طالبان نے صوفیا کے مزارات پر رقص کو خلافِ اسلام قرار دیدیا
لندن (نیٹ نیوز+ اے این این) کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے صوفیاءاسلام کے مزارات پر رقص کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ سندھ میں موجودہمارے جنگجوو¿ں کی ایک بڑی تعداد شریعت کے خلاف عمل پیرا ہونے والے تمام افراد کو نشانہ بنائے گی۔ بی بی سیکے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہاکہ مرد اور خواتین ملکر رقص کرتے ہیں یہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ انہوں نے کہاکہ سندھ میں ہمارے جنگجوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جو شریعت کے خلاف عمل پیرا ہونیوالے تمام افراد کو نشانہ بنائیگی۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ کے کنارے واقع سیہون شریف میں مشہور صوفی برزگ لال شہباز قلندر کے مزار پر حاضری دینے والے تقریباً تمام زائرین عمر اور جنس کی قید سے آزاد ہو کر ڈھول کی تھاپ پر ہونیوالے رقص میں حصہ لیتے ہیں۔ صوفی تعلیمات عدم تشدد کا درس دیتی ہیں۔ تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو سندھ کا علاقہ مذہبی برداشت کے حوالے سے مثالی حیثیت رکھتا ہے تاہم رواں برس کے دوران سندھ میں ہونیوالے متعدد حملوں میں صوفیوں کے مزاروں کو بھی نشانہ بنایا گیا، کہا جاتا ہے کہ جنگجوں نے نئے محفوظ ٹھکانے بناتے ہوئے سندھ میں بھی اپنے پاو¿ں جمانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانے کیلئے نئے راستے تلاش کرنا شروع کر دئیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق رواں برس فروری میں ہی انتہا پسندوں نے اپنے ایک حملے میں ایک معروف صوفی شخصیت کو ہلاک کر دیا۔ مقتول کے بیٹے سید سرور علی شاہ بخاری نے بتایا کہ انتہا پسند ہمیں ہلاک کرنے کی کوشش میں ہیں۔ سندھ کے ماری نامی دیہات میں واقع درگاہ غلام شاہ غازی مزار کے گدی نشین 36سالہ بخاری نے مزید کہا کہ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ اچانک ہی لوگ ہمارے مخالف ہو گئے۔ سندھ میں صوفیوں کے مزاروں پر ہونے والے حملوں کی تحقیقات کرنے والے ایک اعلیٰ پولیس افسر عبدالخالق شیخ نے کہاکہ ان حملوں سے قبل سندھ میں عسکریت پسندی عام بات نہیں تھی۔ صوبہ سندھ میں طالبان نظریات کے فروغ کے لئے کئی مدرسے قائم ہو چکے ہیں، جہاں لوگوں کو مقدس جنگ کے لئے اکسایا جاتا ہے۔ ان مدرسوں میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں، جنہیں مشرق وسطیٰ کی مختلف ریاستوں کی طرف سے مالی امداد دی جاتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ بنیاد پسندوں کی مساجد کے باہر چندہ اکٹھا کرتے رہتے ہیں۔ ان دیہی علاقوں میں واقع مختلف مساجد پر سفید اور سیاہ رنگ کے ایسے جھنڈے بھی لہراتے ہوئے نظر آتے ہیں، جو طالبان گروپوں کے حامی استعمال کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق عسکریت پسند تنظیم لشکر جھنگوی نے بھی سندھ میں اپنے قدم جما لئے ہیں اور اپنے نظریات کو عام کرنے کے لئے یہ انتہا پسند تنظیم سندھ کے دیہی علاقوں میں متعدد مدرسے چلا رہی ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق شکار پور اور سکھر کے نواحی علاقوں میں جنگجو گروپوں نے اپنے ٹھکانے بنا لئے ہیں۔ ماری کے دہشت گردانہ حملے میں زخمی ہو جانے والے ایک مقامی باشندے ذوالفقار میمن نے بتایا کہ اس حملے سے کچھ عرصہ قبل ہی شکار پور میں ایک مدرسہ بنایا گیا تھا، اس سے قبل یہاں طالبان کو کوئی مدرسہ نہیں تھا۔ وہ ایک منظم طریقے سے نوجوانوں کے مذہبی نظریات بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے بس میں نہیں ہے کہ ہم اس حوالے سے کچھ کر سکیں۔