حنا ربانی کھر کا جنرل اسمبلی سے خطاب‘ عالمی برادری کو پاکستان کیخلاف جارحانہ امریکہ عزائم سے آگاہ کرنا ضروری تھا
لندن (تجزیہ: خالد ایچ لودھی) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے پاکستان کی نوجوان وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے اپنے خطاب میں اپنی تمام تر تقریر کو دہشت گردی کی جنگ تک محدود رکھا۔ گو کہ انہوں نے مسئلہ کشمیر اور فلسطین کی بھی بات کی لیکن یہ تمام کی تمام محض سفارت کاری کے رسمی کلمات تک ہی محدود تھی۔ کشمیر ایشو کو جس انداز میں عالمی فورم پر اجاگر کرنے کی ضرورت تھی وہ دیکھنے میں نہیں آئی اور نہ ہی اس ضمن میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کی جانب سے کوئی اعلیٰ سفارت کاری یا لابنگ کا مظاہرہ نظر آیا۔ حنا ربانی کھر کی بطور وزیر خارجہ یہ پہلی تقریر تھی جو کہ انہوں نے اس حیثیت سے اقوام متحدہ کے فورم میں کی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اس اہم تقریر میں کشمیر کے ایشو کو اپنا مرکزی نقطہ بناتیں۔ دہشت گردی کا مسئلہ یقیناً سرفہرست رہنا چاہئے تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اقوام عالم کو پاکستان کے خلاف امریکہ کے جارحانہ عزائم کے بارے میں کھل کر بتاتیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان امن پسند ملک ہے اور تمام ممالک کے ساتھ امن کے ساتھ رہنے کا خواہش مند ہے لیکن پھر بھی وزیر خارجہ کو کم از کم پاکستان کے خلاف بھارت کی تخریبی اور دہشت گردی کی کارروائیوں اور بلوچستان میں مداخلت کے بارے میں اقوام عالم کو ضرور بتانا چاہئے تھا تاکہ اقوام متحدہ کے ریکارڈ پر بھارت کا پاکستان دشمن رویہ واضح رہے۔ اس موقع پر پاکستان کو اپنا موقف بڑے واضح الفاظ میں پیش کرنا چاہئے تھا۔ روز بروز امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ڈو مور، ڈو مور کی ڈکٹیشن، اب پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کیلئے سنگین خطرہ بن چکی ہے اور دوسری جانب امریکہ ایبٹ آباد طرز کے آپریشن کی ایک بار پھر تیاری کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے موجودہ اجلاس میں حنا ربانی کھر کو دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ کو اعتماد میں لے کر پاکستان کا موقف بھرپور انداز میں پیش کرتے ہوئے پاکستان کے دوستوں کو اس ضمن میں متفقہ قرارداد پاس کروانی چاہئے تھی جس میں آزاد اور خودمختار پاکستان کی سالمیت کے خلاف امریکہ کے عزائم کی مذمت کی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا، محض حنا ربانی کھر کی امریکہ کے صدر بارک اوباما کے ساتھ رسمی تصویر اور پھر امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے ساتھ رسمی ملاقات ، کیا اس سے پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کو درپیش خطرات ٹل جائیں گے؟