سخت لہجہ اختیار کرینگے....پاکستان سے پہلے جیسی شراکت مشکل ہے : مولن : اوباما انتظامیہ مولن سے ناراض ہے : واشنگٹن پوسٹ‘ وائٹ ہاﺅس کا آئی ایس آئی سے متعلق الفاظ کی توثیق سے انکار‘ پینٹاگون کی حمایت
واشنگٹن (نمائندہ خصوصی +ایجنسیاں+ مانیٹرنگ نیوز) امریکی جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین ایڈمرل مائیک مولن نے ایک بار پھر الزام عائد کیا ہے پاکستان حقانی نیٹ ورک کی مدد کر رہا ہے‘ نیٹ ورک کے آپریشنز پر آئی ایس آئی کا کنٹرول نہیں۔ وال سٹریٹ جرنل سے انٹرویو میں مولن نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کیلئے امریکہ پاکستان سے سخت لہجہ اختیار کرے گا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ آئی ایس آئی نے حقانی نیٹ ورک کو سٹرٹیجک سپورٹ فراہم کی ہے‘ نیٹ ورک کے آپریشنز پر اس کا کنٹرول نہیں ہے۔ حقانی نیٹ ورک کو لائٹ کی طرح آن اور آف نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا اثر و رسوخ کم کرنے کیلئے اقدامات ضرور کئے جا سکتے تھے۔ مولن نے تسلیم کیا کہ پاکستان امریکہ تعلقات اس وقت کم ترین سطح پر ہیں، پہلے جیسی پارٹنر شپ بحال ہونا مشکل ہو گا۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ان کی پاکستان سے متعلق اختیار کی گئی حکمت عملی کے مطلوبہ نتائج نہیں نکل سکے، امریکہ کو پاکستان سے طویل المدت سرٹیجک پارٹنر شپ کی ضرورت ہے۔ مولن نے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت برداشت نہیں کر سکتے۔ انہوں کہا کہ کابل کے ہوٹل پر حملہ میں ہمارے 77 فوجی زخمی ہوئے پھر ہمارے سفارت خانے پر حملہ کیا گیا، ان حملوں اور اس طرح کے حملوں کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے ہے‘ اسے آئی ایس آئی کا طویل المدت سٹرٹیجک تعاون حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اکیلے نہیں جنہیں یہ یقین ہے کہ پاک فوج یا آئی ایس آئی کا حقانی نیٹ ورک پر مکمل کنٹرول ہو لیکن یہ واضح ہے کہ پاکستان طویل مدت سے حقانی نیٹ ورک کی مدد کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حملوں میں شدت آگئی ہے ہم لوگوں کو کھو رہے ہیں اور یہ سب کچھ برداشت نہیں ہو پا رہا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے بہترین دوست رہے ہیں تاہم اس موقع پر کیا کہیں کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں؟ موجودہ دور میں کشیدگی کے باجود پاکستان سے سٹرٹیجک تعلقات چاہتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان خطے کے اہم ممالک ہیں‘ انہوں نے ہر مرتبہ وہاں جاکر بہت کچھ سیکھا، خطے کے بہتر مستقبل اور بہتر تعلقات کے لئے بہت محنت کی ہے۔ مولن نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ پاکستان اور افغانستان طویل مدتی سٹرٹیجک پارٹنر شپ یا تعلقات رکھ سکتے ہیں اور یقینی طور یہ انتہائی اہم ہے۔دریں اثناءترجمان وائٹ ہاﺅس نے کہا ہے کہ امریکہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی چاہتا ہے۔ ترجمان نے مولن کے آئی ایس آئی کے حوالے سے الفاظ کی توثیق سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو الفاظ مولن نے استعمال کئے وہ میں استعمال نہیں کرونگا۔ ترجمان سے جب پوچھا گیا کہ کیا آئی ایس آئی کے حوالے سے مولن کے بیان کو وائٹ ہاﺅس کی منظوری حاصل تھی تو ترجمان نے جواب دینے سے گریز کیا۔ دریں اثناء امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے کہا ہے کہ امریکہ کے سبکدوش ہونے والے جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن کا پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے حوالے سے بیان مبالغہ آرائی پر مبنی تھا۔ اوباما انتظامیہ مائیک مولن کے بیان پر سخت ناراض ہے۔ بدھ کو اخبار نے خفیہ اندرونی ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر انکشاف کیا ہے کہ اس بیان سے طویل اقدام کےلئے تیار کرنے کی امریکی پالیسی کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اخبار کے مطابق امریکہ کے فوجی سربراہ نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے حوالے سے بیان ایسے وقت میں دیا جب اوباما انتظامیہ اسلام آباد کو افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپ کے خلاف کارروائی کیلئے تیار کر رہی تھی۔ اخبار نے لکھا کہ اوباما انتظامیہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے اختتام سے قبل ہی اسے جیتنے کے بارے میں پالیسی کو عملی اقدام دے رہی تھی جس سے خطے میں امن و استحکام آسکے۔ امریکی افواج کے سربراہ نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے حوالے سے دیئے گئے اپنے بیان پر امریکی سینٹ کی آرمڈفورسز کمیٹی کو وضاحت پیش کی ہے جس میں انہوں آئی ایس آئی کے حوالے سے کہا کہ اس نے کابل سفارت خانے پر ہونے والے حقانی نیٹ ورک کے حملے میں مدد فراہم کی ہے۔ٹینٹاگون حکام نے واشنگٹن پوسٹ کی خبر کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کے افغانستان میں کردار کے حوالے سے امریکی حکام میں کوئی اختلاف نہیں اور آئی ایس آئی سمیت پاکستانی عناصر حقانی نیٹ ورک کی حمایت کرتے ہیں۔پینٹاگون کے ترجمان نے مزید کہا کہ وزیر دفاع پنیٹا ایڈمرل مائیک مولن کے بیان کی توثیق کرتے ہیں اور دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستانی حکومتی عناصر کے حقانی گروپ کے ساتھ ناقابل قبول رابطے ہیں جو پاکستانی عناصر حقانی گروپ کی حمایت کر رہے ہیں‘ ان میں آئی ایس آئی شامل ہے۔