لاہور (وقائع نگار خصوصی + سپیشل رپورٹر + ریڈیو مانیٹرنگ + ایجنسیاں) حکومت پنجاب نے صوبے میں قومی اسمبلی کی 2 نشستوں حلقہ این اے 55 راولپنڈی 6 اور حلقہ این اے 123 لاہور۔6 صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں پی پی 82 جھنگ 10 اور پی پی 284 بہاولنگر 8 کی نشستوں پر ضمنی انتخاب کیلئے 7 نومبر کو ہونے والا الیکشن رکوانے کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔ خواجہ محمد حارث اور مصطفی رمدے ایڈووکیٹس کے توسط سے دائر کی گئی درخواست میں حکومت پنجاب کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پنجاب میں ضمنی انتخابات کے انعقاد کیلئے امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں‘ حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق نقص امن کے علاوہ دہشت گردی کا بھی خطرہ ہے‘ چیف الیکشن کمشنر کو درخواست دی تھی مگر اس نے اسے مسترد کر دیا۔ چیف الیکشن کمشنر نے انتخابی شیڈول کے اعلان سے قبل صوبائی حکومت سے مشاورت نہیں کی لہٰذا امن و امان کی صورتحال خوشگوار ہونے تک مذکورہ حلقوں میں 7 نومبر کو منعقد ہونیوالا ضمنی انتخاب ملتوی کرنے کا حکم صادر کیا جائے۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس میاں ثاقب نثار آج مذکورہ درخواست کی سماعت کرینگے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمشن کی جانب سے جاری کئے گئے شیڈول کے مطابق پنجاب میں قومی اسمبلی کی 2 نشستوں حلقہ این اے 55 راولپنڈی 6 اور حلقہ این اے 123 لاہور 6 سمیت صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں پی پی 82 جھنگ 10 اور پی پی 284 بہاولنگر 8 کی نشستوں پر ضمنی انتخاب کیلئے پولنگ 7 نومبر بروز ہفتہ کو صبح 8 سے شام 5 بجے تک منعقد ہو گی۔ جس کیلئے کاغذات نامزدگی 30 ستمبر سے 3 اکتوبر تک وصول کئے جائیں گے جن کی جانچ پڑتال و چھان بین 5 سے 7 اکتوبر تک ہو گی۔ اسی طرح کاغذات نامزدگی کی منظوری یا استرداد کے خلاف اپیلیں 12 اکتوبر کو وصول کی جائیں گی اور متعلقہ الیکشن ٹربیونل ان پر 16 اکتوبر تک فیصلے کریں گے۔ کاغذات نامزدگی 17 اکتوبر کو واپس لئے جا سکیں گے۔ امیدواروں کی حتمی فہرست 18 اکتوبر کو جاری کر دی جائے گی‘ ان نشستوں پر انتخاب کیلئے پولنگ 7 نومبر کو ہو گی۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 55‘ این اے 123 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 82 جھنگ کی نشستوں پر جو امیدوار پہلے کاغذات نامزدگی جمع کروا چکے ہیں انہیں دوبارہ کاغذات نامزدگی فارم جمع کرانے کی ضرورت نہیں۔ واضح رہے کہ این اے 123 لاہور اور این اے 55 راولپنڈی سے شیخ رشید اور عمران خان امیدوار ہیں۔ اس سے قبل بھی ضمنی الیکشن سکیورٹی خدشات اور امن و امان کے باعث ملتوی کئے گئے تھے۔ ضمنی انتخابات میں لاہور سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کے انتخاب میں حصہ لینے کے اعلان سے اس کی اہمیت بڑھ گئی‘ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست خودکش حملے کے متوقع خطرے کے باعث کی ہے۔ ادھر پنجاب کے قومی اسمبلی کے حلقہ کے 123 میں 46 امیدواروں نے 63 کاغذات حاصل کر لئے جن میں 26 آزاد امیدوار، 3 مسلم لیگ (ق)، 2 مسلم لیگ (ن) اور 2 پیپلز پارٹی، سمیت جماعت اسلامی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم، جی یو پی نیازی، جے یو پی فضل الرحمان اور دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے فارم حاصل کر لئے۔ ضمنی الیکشن میں کسی بھی حلقہ میں اتنے زیادہ امیدواروں کی شمولیت کا ریکارڈ بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ نواز شریف اور الیاس گجر پہلے ہی اس حلقے میں امیدوار ہیں اور دو روز قبل امیدواروں کی تعداد 50 ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے میاں طاہر علی، خواجہ یوسف رفیق اور میاں کامران شفیع اور مسلم لیگ (ن) کے حاجی محمد الیاس، محمد ندیم ناصر، پاکستان پیپلز پارٹی کے ملک جاوید شہباز ہیرا، ملک اظہر علی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم کے رانا محمد ریاض امیدوار ہیں۔ جماعت اسلامی کے حافظ سلمان بٹ، عوامی پیپلز پارٹی کے انجینر غلام جیلانی اور جے یو پی کے حاجی عبدالمجید خان، تحریک انصاف کے میاں وحید الرحمان شامل ہیں۔ اے این این کے مطابق مسلم لیگ (ن) جلد مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ کرے گی اور میاں نوازشریف ضمنی الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) ضمنی انتخابات کے حوالے سے ابھی تک تذبذب کا شکار ہے وہ موجودہ سیاسی نظام کے ساتھ چلنے یا نہ چلنے کے بارے میں فیصلہ نہیں کر پائی۔ ان ذرائع کا دعویٰ ہے کہ نوازشریف ضمنی الیکشن نہیں لڑ رہے بلکہ وہ موجودہ ایوان کا حصہ بننے کی بجائے مڈٹرم الیکشن چاہتے ہیں لیکن مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ کرنے میں انٹرنیشنل فورسز کی طرف سے حوصلہ افزا، اندرونی و بیرونی مقتدر حلقوں کی طرف سے حمایت میں سگنل نہیں مل رہا یہی وجہ سے مسلم لیگ (ن) محض پنجاب حکومت تک اتفاق کر کے بیٹھی ہوئی ہے وہ مرکز میں ابھی اپنی اعلیٰ ترین قیادت کو داخل نہیں کرنا چاہتی اس پالیسی کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) حالیہ ضمنی انتخابات کے حق میں نہیں‘ وہ امن و امان کا جواز بنا کر ضمنی الیکشن ملتوی کرانا چاہتی ہے حالانکہ گذشتہ 4 ماہ سے پنجاب میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہے۔ جی این آئی کے مطابق میاں نوازشریف کے ضمنی الیکشن میں حصہ نہ لینے کا امکان ہے۔ ان ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم کے بعض قریبی ساتھیوں نے انہیں مشورہ دیا کہ موجودہ اسمبلی میں ان کے سیاسی قد کے مطابق ان کا کوئی کردار کہیں جو وہ ادا کر سکیں اس لئے انہیں موجودہ اسمبلی میں جانے کی بجائے پوری توجہ آئندہ الیکشن پر مرکوز رکھنی چاہئے۔ ذرائع کے مطابق حلقہ این اے 123 میں نوازشریف کی کامیابی یقینی ہے‘ وہ اس حلقہ سے باآسانی منتخب ہو سکتے ہیں لیکن ان کے قریبی ساتھیوں کا خیال ہے کہ قومی اسمبلی میں جا کر وہ زیادہ سے زیادہ قائد حزب اختلاف یا پھر مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر بن سکتے ہیں جو نوازشریف کے سیاسی قد سے چھوٹے عہدے ہیں اس لئے اگر وہ اس اسمبلی کا حصہ نہ بنیں تو زیادہ بہتر ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت پنجاب کی طرف سے ضمنی الیکشن رکوانے کے لئے دی جانے والی ہائیکورٹ کی درخواست اسی کڑی کا ایک حصہ ہے۔ضمنی انتخابات کے التواء کیلئے دائر درخواست سے جہاں ملک کے سیاسی منظر نامے میں ہلچل کے آثار پیدا ہوگئے ہیں وہاں مسلم لیگ ن سمیت دیگر سیاسی کارکن بھی کیس کی سماعت کے موقع پر ہائیکورٹ میں موجود ہوں گے جن کی کوشش ہو گی کہ وہ تمام کیس کی سماعت خود سن سکیں ۔جبکہ مسلم لیگ ق کی طرف سے بھی درخواست میں فریق بننے کی خواہش کا اظہار کرنے کے بعد کیس مزید دلچسپ ہو گیا ہے اور اس میں مسلم لیگ ن کے کارکنوں کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور کارکنوں کی اس کیس میں دلچسپی بڑھ گئی ہے ۔چنانچہ آج لاہورہائیکورٹ میں سیاسی ورکروں کے حوالے سے خوب گہما گہمی کا سما ں ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس موقع پر سکیورٹی کے بھی خصوصی انتظامات کئے جا رہے ہیں ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024