بیگ راج ۔۔۔
امریکی صدر باراک حسین اوباما عجیب کشمکش سے دوچار ہیں ۔ اگر افغانستا ن میں مذید فوج جھونکتے ہیں تو امریکی عوام میں اپنی بچی کھچی مقبولیت سے بھی ہا تھ دھو بیٹھیں گے اور اگر اپنے کما نڈر کی التجا ئوں کو نہیں سنتے تو کوہساروں سے سر ٹکراتے ستر ہزار امریکی فو جیوں کے دل ڈوب جا ئیں گے، مورال مر جا ئے گا۔
نیٹو فورسز اور امریکی افواج کے مشترکہ کمانڈر جنر ل میک کرسٹل نے کوئی چار ماہ قبل جون میں کمان سنبھالی تھی ۔ انہیں بڑی امیدوں کے ساتھ افغانستان کے میدان کارزار میں اتارا گیا تھا۔ باراک انتظامیہ کو یقین تھا کہ عرا قی عوام پر آگ و آہن برسانے والے اس سفا ک جرنیل کے میدان میں اتر تے ہی امارت اسلامیہ افغانستان سے وابستہ طالبان خوف سے تھرتھر کانپنے لگیں گے اور آزادی وطن کی تحریک چند دنوں میں ٹھکانے لگ جائے گی۔ یہ سچ ہے کہ تازہ دم جرنیل نے دو ماہ بڑی مستعدی سے گزار ے۔ ائرکنڈیشنڈ مورچوں میں محو رقص و ہیروین امریکی سورما ئوں کی جرات مندی کو جگانے کی کوشش کی۔ مورال بلند کر نے کے تمام فو جی حربے استعمال کئے لیکن جونہی اگست نے انگڑائی لی تو افغان طالبان نے قابض فوجیوں کی لاشیں گرانا شروع کیں۔ صرف اگست کے مہینے میں اکیاون امر یکی فوجیو ں کو موت کے گھاٹ اتاراگیا۔ امر یکی اخبارات نے \\\"خونی اگست\\\" کے عنوان سے نوحے لکھے اور ماتم کیا
بو ڑ ھے میک کرسٹل کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ اس نے عالم ہر اس میں ایک خفیہ رپورٹ تیار کی۔ واشنگٹن میں بیٹھے ڈیفنس سیکرٹری روبرٹ گیٹس نے یہ رپورٹ پڑھی تو اس کے چہر ے پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور ہو ش کے طوطے دماغی پنجرے سے بھاگ نکلے۔ پھولے ہوئے سانسوں سے صرف اتنا کہہ سکا \\\"اندھیرا ہی اندھیرا ہے\\\"۔ جنرل میک کرسٹل نے مذید بیس ہزار فوجیوں کا مطالبہ کیا تھا اور لکھا تھا کہ \\\"افغانسان میں شدت پسندوں کو شکست دینا تقریباً ناممکن ہوتا جا رہا ہے، ہمیں عسکری کی بجائے سیا سی را ہیں بھی تلاش کر نا ہونگی\\\" ۔
میک کرسٹل نے ٹھیک بیس دن بعد دوسری خفیہ رپورٹ بھی بھجوائی۔ ایک بار پھر مزید فوجیوں کا مطالبہ کیا گیا۔\\\" ہم فتح سے دور اور شکست کے قریب ہوتے جا رہے ہیں\\\" ایک امریکی آفیسر نے رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔ صدر باراک حسین ابامہ پر فوجیں بھجوانے کے لیے بہت دبائو ہے۔ لیکن دوسری جانب ان کی اپنی پا رٹی کے دانشمند لوگ مشورہ دے رہے ہیں کہ جب ستر ّہزار امریکی فوجی، چالیس ہزار نیٹو فوجی، ڈیڑھ لاکھ افغان فوجی اور ہزاروں کی تعداد میں بھارتی اہلکار مل کر گذشتہ آ ٹھ برس میں ملاّں عمر کے مجاہدین کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے تو مزید بیس لاکھ فوجی اس قتل گاہ میں کتنے دن نکالیںگے؟
سی این این نے رپورٹ دی ہے کہ امریکی انتظامیہ اپنی افغان پالیسی کا از سرنو جائزہ لے رہی ہے۔ سوچا جا رہا ہے کہ \\\"شدت پسندوں\\\" سے مذاکرات کی راہ کیسے نکالی جائے؟ کوئی ایسا سبب بنے کہ ہزیمت کی بجائے میز پر بات بن جا ئے ۔ بیس اگست کو کرائے گئے \\\"فر اڈ\\\" انتخابات کے نتیجے میں \\\"منتخب\\\" ہو نے وا لے شخص حامد کرزئی نے امریکہ کی جمہوریت پسندی اور افغانستان کی تعمیر نو کے دعووں کو عالمی سطع پر ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ حامد کرزئی اب امریکہ کے لیے قوت کی بجائے شرمندگی کا حوالہ بن گئے ہیں۔ ان کی آوا ز پہلے ہی مجاہدین آزادی سننے کو تیار نہیں تھے، اب مذید بے آواز ہو گئے ہیں۔ پاکستانی طالبان کا الگ معاملہ ہے۔ انہوں نے جو بویا وہ کاٹ رہے ہیں۔ افغان طالبان انہیں اپنا حصہ نہیں سمجھتے ۔
سابق صدر مشرف نے امریکہ کی نظروں میں نواز شریف کی فائل گندی کرنے کی ایک بار پھر کوشش کی ہے۔ انہوں نے چند روز قبل ایک انٹرویو میںاپنے حواس پر چھائے میاں محمد نواز شر یف کے بار ے میں کہا کہ \\\"نواز شر یف اسامہ بن لادن سے پانچ مرتبہ ملے ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف کبھی کھل کر بیان نہیں دیا۔ وہ طالبان کے حا می ہیں۔ \\\"غا لب گمان یہی ہے کہ نائن الیون سے پہلے جنرل پرویز مشرف خود بھی اسامہ بن لادن سے ملتے رہے ہوں گے۔ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ مشرف نے کابل پر قبضہ کروا کر خود کو امریکہ کی پسندیدہ شخصیت قرار دلوایا تھا۔آج امریکہ کو ایسے شخص کی ضرورت ہے جو اسے افغانستان کی دلدل سے با ہر نکالے۔ ظاہر ہے کہ پرویز مشرف اور ان کے ہم خیالوں کو یہ شرف نصیب نہیںہو سکتا۔ اس کے لیے کسی ایسے پاکستانی رہنما کی ضرورت ہے جس پر افغان طالبان اعتماد کرتے ہوں اور اس کی ضمانت پر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کو تیار ہوں۔ میرے خیال میں صدر مشرف نے نواز شریف کی مخالفت کرتے کرتے امریکیوںکوایسی شخصیت کی یاد دہانی کرائی ہے۔ یہ یاد دلایا ہے کہ اگر ملاّں عمر، اسا مہ بن لادن اور افغان طالبان مذاکرات کے لیے کسی سیا سی رہنما پر اعتماد کر سکتے ہیں تو وہ میاں نواز شریف ہو سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ سال دو سا ل کے اندر امریکہ کو میاں نواز شریف کی ضرورت پڑ ے گی۔کیونکہ فوجوں یا ڈرون حملوں کی تعداد میں اضافہ سے بھی امریکی فوج سرخرو نہ ہو سکے گی اور امکانات یہی ہیں کہ جنرل میک کرسٹل آئندہ خفیہ رپورٹ میں افغان طالبان سے مذاکرات کو واحد حل قرار دیں گے۔ ورنہ غیر مشروط پسپائی مقّدر ٹھہر ے گی!
امریکی صدر باراک حسین اوباما عجیب کشمکش سے دوچار ہیں ۔ اگر افغانستا ن میں مذید فوج جھونکتے ہیں تو امریکی عوام میں اپنی بچی کھچی مقبولیت سے بھی ہا تھ دھو بیٹھیں گے اور اگر اپنے کما نڈر کی التجا ئوں کو نہیں سنتے تو کوہساروں سے سر ٹکراتے ستر ہزار امریکی فو جیوں کے دل ڈوب جا ئیں گے، مورال مر جا ئے گا۔
نیٹو فورسز اور امریکی افواج کے مشترکہ کمانڈر جنر ل میک کرسٹل نے کوئی چار ماہ قبل جون میں کمان سنبھالی تھی ۔ انہیں بڑی امیدوں کے ساتھ افغانستان کے میدان کارزار میں اتارا گیا تھا۔ باراک انتظامیہ کو یقین تھا کہ عرا قی عوام پر آگ و آہن برسانے والے اس سفا ک جرنیل کے میدان میں اتر تے ہی امارت اسلامیہ افغانستان سے وابستہ طالبان خوف سے تھرتھر کانپنے لگیں گے اور آزادی وطن کی تحریک چند دنوں میں ٹھکانے لگ جائے گی۔ یہ سچ ہے کہ تازہ دم جرنیل نے دو ماہ بڑی مستعدی سے گزار ے۔ ائرکنڈیشنڈ مورچوں میں محو رقص و ہیروین امریکی سورما ئوں کی جرات مندی کو جگانے کی کوشش کی۔ مورال بلند کر نے کے تمام فو جی حربے استعمال کئے لیکن جونہی اگست نے انگڑائی لی تو افغان طالبان نے قابض فوجیوں کی لاشیں گرانا شروع کیں۔ صرف اگست کے مہینے میں اکیاون امر یکی فوجیو ں کو موت کے گھاٹ اتاراگیا۔ امر یکی اخبارات نے \\\"خونی اگست\\\" کے عنوان سے نوحے لکھے اور ماتم کیا
بو ڑ ھے میک کرسٹل کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ اس نے عالم ہر اس میں ایک خفیہ رپورٹ تیار کی۔ واشنگٹن میں بیٹھے ڈیفنس سیکرٹری روبرٹ گیٹس نے یہ رپورٹ پڑھی تو اس کے چہر ے پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور ہو ش کے طوطے دماغی پنجرے سے بھاگ نکلے۔ پھولے ہوئے سانسوں سے صرف اتنا کہہ سکا \\\"اندھیرا ہی اندھیرا ہے\\\"۔ جنرل میک کرسٹل نے مذید بیس ہزار فوجیوں کا مطالبہ کیا تھا اور لکھا تھا کہ \\\"افغانسان میں شدت پسندوں کو شکست دینا تقریباً ناممکن ہوتا جا رہا ہے، ہمیں عسکری کی بجائے سیا سی را ہیں بھی تلاش کر نا ہونگی\\\" ۔
میک کرسٹل نے ٹھیک بیس دن بعد دوسری خفیہ رپورٹ بھی بھجوائی۔ ایک بار پھر مزید فوجیوں کا مطالبہ کیا گیا۔\\\" ہم فتح سے دور اور شکست کے قریب ہوتے جا رہے ہیں\\\" ایک امریکی آفیسر نے رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔ صدر باراک حسین ابامہ پر فوجیں بھجوانے کے لیے بہت دبائو ہے۔ لیکن دوسری جانب ان کی اپنی پا رٹی کے دانشمند لوگ مشورہ دے رہے ہیں کہ جب ستر ّہزار امریکی فوجی، چالیس ہزار نیٹو فوجی، ڈیڑھ لاکھ افغان فوجی اور ہزاروں کی تعداد میں بھارتی اہلکار مل کر گذشتہ آ ٹھ برس میں ملاّں عمر کے مجاہدین کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے تو مزید بیس لاکھ فوجی اس قتل گاہ میں کتنے دن نکالیںگے؟
سی این این نے رپورٹ دی ہے کہ امریکی انتظامیہ اپنی افغان پالیسی کا از سرنو جائزہ لے رہی ہے۔ سوچا جا رہا ہے کہ \\\"شدت پسندوں\\\" سے مذاکرات کی راہ کیسے نکالی جائے؟ کوئی ایسا سبب بنے کہ ہزیمت کی بجائے میز پر بات بن جا ئے ۔ بیس اگست کو کرائے گئے \\\"فر اڈ\\\" انتخابات کے نتیجے میں \\\"منتخب\\\" ہو نے وا لے شخص حامد کرزئی نے امریکہ کی جمہوریت پسندی اور افغانستان کی تعمیر نو کے دعووں کو عالمی سطع پر ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ حامد کرزئی اب امریکہ کے لیے قوت کی بجائے شرمندگی کا حوالہ بن گئے ہیں۔ ان کی آوا ز پہلے ہی مجاہدین آزادی سننے کو تیار نہیں تھے، اب مذید بے آواز ہو گئے ہیں۔ پاکستانی طالبان کا الگ معاملہ ہے۔ انہوں نے جو بویا وہ کاٹ رہے ہیں۔ افغان طالبان انہیں اپنا حصہ نہیں سمجھتے ۔
سابق صدر مشرف نے امریکہ کی نظروں میں نواز شریف کی فائل گندی کرنے کی ایک بار پھر کوشش کی ہے۔ انہوں نے چند روز قبل ایک انٹرویو میںاپنے حواس پر چھائے میاں محمد نواز شر یف کے بار ے میں کہا کہ \\\"نواز شر یف اسامہ بن لادن سے پانچ مرتبہ ملے ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف کبھی کھل کر بیان نہیں دیا۔ وہ طالبان کے حا می ہیں۔ \\\"غا لب گمان یہی ہے کہ نائن الیون سے پہلے جنرل پرویز مشرف خود بھی اسامہ بن لادن سے ملتے رہے ہوں گے۔ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ مشرف نے کابل پر قبضہ کروا کر خود کو امریکہ کی پسندیدہ شخصیت قرار دلوایا تھا۔آج امریکہ کو ایسے شخص کی ضرورت ہے جو اسے افغانستان کی دلدل سے با ہر نکالے۔ ظاہر ہے کہ پرویز مشرف اور ان کے ہم خیالوں کو یہ شرف نصیب نہیںہو سکتا۔ اس کے لیے کسی ایسے پاکستانی رہنما کی ضرورت ہے جس پر افغان طالبان اعتماد کرتے ہوں اور اس کی ضمانت پر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کو تیار ہوں۔ میرے خیال میں صدر مشرف نے نواز شریف کی مخالفت کرتے کرتے امریکیوںکوایسی شخصیت کی یاد دہانی کرائی ہے۔ یہ یاد دلایا ہے کہ اگر ملاّں عمر، اسا مہ بن لادن اور افغان طالبان مذاکرات کے لیے کسی سیا سی رہنما پر اعتماد کر سکتے ہیں تو وہ میاں نواز شریف ہو سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ سال دو سا ل کے اندر امریکہ کو میاں نواز شریف کی ضرورت پڑ ے گی۔کیونکہ فوجوں یا ڈرون حملوں کی تعداد میں اضافہ سے بھی امریکی فوج سرخرو نہ ہو سکے گی اور امکانات یہی ہیں کہ جنرل میک کرسٹل آئندہ خفیہ رپورٹ میں افغان طالبان سے مذاکرات کو واحد حل قرار دیں گے۔ ورنہ غیر مشروط پسپائی مقّدر ٹھہر ے گی!