محمد طارق چودھری ۔۔۔
پاکستان کی رائے عامہ کا جائزہ لیا جائے تو ملک بھر میں امریکہ اور اسرائیل کو سب سے زیادہ غیرمقبول اور خطرناک ممالک خیال کیا جاتا ہے۔ ہمارے دانشور ہوں یا عوام امریکہ کے عزائم کو عالم اسلام خصوصاً پاکستان کیخلاف تصور کرتے ہیں۔ انڈیا ہماری سلامتی کیلئے اتنا طاقت ور خطرہ نہیں تھا جتنا اب امریکی حمایت اور تعاون سے بنتا جا رہا ہے۔ ہمارے خطے میں امریکی سامراجیت نے طاقت کے توازن اور علاقائی استحکام کو تباہ کر دیا ہے۔ ہمارے ملک میں بعض امریکی اقدامات اب ناقابل برداشت حدوں کو چھونے لگے ہیں۔ قوم کو اپنی حفاظت اور استحکام کیلئے تیزی کیساتھ مؤثر اقدامات کرنا پڑینگے اور وہ بھی پاکستان کی حکومت اور پارلیمانی اپوزیشن سے کسی تعاون کی امید کے بغیر۔
حالیہ دنوں میں پاکستان کے اندر امریکی خفیہ ایجنسیوں اور سفارتی اداروں کی طرف سے تیز رفتار مگر پراسرار سرگرمیاں نظر آ رہی ہیں جو کسی بھی طرح پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حجم کے ساتھ میل نہیں کھاتیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں رفاعی کاموں کے نام پر ایک بڑی امریکی این جی او Creative Associate International Inc. (سی اے آئی آئی) کے نام پر کام کر رہی ہے۔ پشاور میں حیات آباد کے علاقے میں قائم دفتر سے اپنے پروگرام کی نگرانی کرتی ہے‘ اسکے آپریشن بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکی دلچسپی اور مفادات کے علاقوں تک محدود ہیں۔ یہ نام نہاد رفاعی تنظیم بجائے خود پراسرار پس منظر میں کام کرتی ہے۔
امریکی سرمائے سے کام کرنے والی‘ امریکہ میں رجسٹرڈ اس تنظیم کی خود امریکہ میں کوئی ہسٹری ہے نہ وجود۔ امریکی میں جس پتہ پر یہ کمپنی رجسٹرڈ کی گئی ہے وہاں اس کاکوئی وجود نہیں وہ ایک خستہ اور بے آباد جگہ ہے۔ جس تنظیم کا قیام پراسرار‘ پس منظر غیرواضح‘ ایڈریس جعلی ہو‘ اسکے مقاصد کس طرح واضح اور نیک قرار دیئے جا سکتے ہیں۔
امریکی خفیہ ایجنسیاں اس طرح کی تنظیمیں اپنی جیب میں رکھتی ہیں تاکہ بوقت ضرورت انہیں کام میں لایا جا سکے‘ اسی تنظیم یعنی سی اے آئی آئی کے کارندوں کو تحفظ دینے کے نام پر ’’بلیک واٹر‘‘ نامی کرایہ پر ملنے والی پرائیویٹ فوج کو بغیر کسی اجازت اور اطلاع کے خفیہ طو رپر پاکستان لایا گیا‘ اس این جی او کی اہمیت‘ موجودگی‘ کام کی نوعیت کوجاننے کیلئے یہی بات کافی ہے کہ بلیک واٹر اس کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ حقیقتاً بلیک واٹر( جس کا اب پاکستان میں نام تبدیل کر کے XE زی سروسز رکھ دیا گیا ہے) کو یہ نام نہاد رفاعی تنظیم ’’کور‘‘ دیتی ہے اور اس کے حقیقی مقاصد اور اقدامات پر پردہ ڈالے رکھتی ہے۔
زی سروسز عرف بلیک واٹر ایسی پرائیویٹ فوج ہے جو امریکی سی آئی اے مخصوص مقاصد کیلئے کرایہ پر حاصل کرتی ہے۔ کرایہ کے قاتلوں کا یہ گروہ امریکہ کے سب سے طاقتور ادارے کی سرپرستی میں ساری دنیا میں مجرمانہ کارروائیوں کیلئے منظم کیا گیا۔ عراق میں اس خونی اور خوفناک جرائم میں ملوث بلیک واٹر کی سرگرمیاں منظر عام ہو کر بدنام ہو گئیں‘ دنیا بھر میں میڈیا نے اسکی خوب تشہیر کر دی۔ پاکستان میں اس کی موجودگی کی اطلاعات ‘ پھر پشاور ہوٹل میںد ھماکے میں اسکے کارندوں کی موت نے ملک کے سکیورٹی اداروں اور ذرائع ابلاغ کو اس طرف متوجہ کر دیا۔ اب بلیک واٹر اپنا نام تبدیل کر کے ایکس ای سروسز بن کر وہی کام انجام دے رہی ہے۔
امریکی CIA خفیہ ایجنسی کے عمومی فرائض سے آگے بڑھ کر خطرناک عملی اقدامات کیلئے ایسی پرائیویٹ فوج کی بنیادیں اٹھا رہی ہے جو اسے پینٹاگان کی ضرورت سے آزاد کر دے اور وہ کسی ریاستی قانون‘ جغرافیائی حدود اور ادارتی نظم کی پابند بھی نہ ہو ‘ کسی بے چہرہ اور بے نام سربراہ کے اشارے پر اپنے فرائض انجام دیا کرے۔ ایکس ای پاکستان میں سابق فوجی افسروں‘ جوانوں‘ دیگر سکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کو بڑی تنخواہوں اور آرام دہ زندگی کا جھانسہ دیکر ایک ایسی عالمی فاشسٹ تنظیم کا رکن بنا رہی ہے جو امریکہ کے مقاصد کیلئے کام کرے لیکن امریکی ادارے یا حکومت کی ذمہ داری نہ ہو۔ انہی کے حکم پر انہی کے مقاصد کیلئے انجام پانے والے سنگین جرائم سے وہ خود کو الگ اور بری الذمہ قرار دے سکے‘ پرکشش ترغیب سے ترتیب پانے والا خود کار نظام جس میں داخل ہو جانے کے بعد باہر نکلنے کا کوئی دروازہ نہیں۔
ایک خبر کیمطابق 300 بلیک واٹر افراد بھارت نے ’’مونا بائو‘‘ میں تعینات کئے ہیں‘ بھارت سکیورٹی کیلئے اس طرح کے انتظامات کرے یہ اسکے عمومی رویے کیخلاف ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بلیک واٹر یا ا یکس ای اے منصوبہ میں وہ بھی امریکی منصوبے کا اتحادی ہے اور مفاداتی بھی‘ یہ ہمارے خلاف خطرناک پیش رفت ہو سکتی ہے۔
ایک طرف خفیہ طریقے سے پرائیویٹ فوج تشکیل پا رہی ہے اور دوسری طرف امریکی سفارت خانے میں توسیع کے نام پر قلعہ بندی کی جا رہی ہے۔ اسلام آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ماسٹر پلان میں تبدیلی کر کے امریکی سفارت خانے کو جو پہلے بہت بڑا قلعہ ہے مزید توسیع کیلئے 56 ایکڑ اراضی الاٹ کی گئی ہے۔ ایک طرف سفارت خانے کی غیرمعمولی وسعت اور قلعہ بندی‘ دوسری طرف فیلڈ میں خفیہ اداروں کی عملی کارروائیاں حدیں پھلانگ چکی ہیں۔
سفارت خانے کی توسیع کے بعد سٹاف کی تعداد بہت بڑھ جائے گی جو پہلے ہی عمومی سفارتی ضروریات سے کہیں زیادہ ہے‘ یہ غیرمعمولی تعداد ہمارے اور امریکی مفادات کی تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ موجودہ تعمیرات سفارت خانے کو چار گنا کر دیگی‘ مزید سفارتی عملے کی کوئی گنجائش نہیں تو پھر یہ توسیع کس لئے؟ ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو دی جانے والی امدادی رقوم حکومت کے ذریعہ نہیں براہ راست خرچ کی جائیں گی۔ ایم کیو ایم کا وفد ان دنوں خاموشی کے ساتھ براہ راست امداد کی اس ڈیل کیلئے امریکہ پہنچ چکا ہے‘ اے این پی پہلے ہی ’’آن بورڈ‘‘ ہے۔ دوسری این جی او الگ منہ کھولے بیٹھی ہے‘ بلوچستان کو رقوم دیں‘ اے این پی کو سرحد میں الگ‘ کراچی میں ایم کیو ایم ‘ اس سے نئے فسادات پیدا ہو ں گے اور تقسیم مفادات بھی۔ (جاری ہے)
پاکستان کی رائے عامہ کا جائزہ لیا جائے تو ملک بھر میں امریکہ اور اسرائیل کو سب سے زیادہ غیرمقبول اور خطرناک ممالک خیال کیا جاتا ہے۔ ہمارے دانشور ہوں یا عوام امریکہ کے عزائم کو عالم اسلام خصوصاً پاکستان کیخلاف تصور کرتے ہیں۔ انڈیا ہماری سلامتی کیلئے اتنا طاقت ور خطرہ نہیں تھا جتنا اب امریکی حمایت اور تعاون سے بنتا جا رہا ہے۔ ہمارے خطے میں امریکی سامراجیت نے طاقت کے توازن اور علاقائی استحکام کو تباہ کر دیا ہے۔ ہمارے ملک میں بعض امریکی اقدامات اب ناقابل برداشت حدوں کو چھونے لگے ہیں۔ قوم کو اپنی حفاظت اور استحکام کیلئے تیزی کیساتھ مؤثر اقدامات کرنا پڑینگے اور وہ بھی پاکستان کی حکومت اور پارلیمانی اپوزیشن سے کسی تعاون کی امید کے بغیر۔
حالیہ دنوں میں پاکستان کے اندر امریکی خفیہ ایجنسیوں اور سفارتی اداروں کی طرف سے تیز رفتار مگر پراسرار سرگرمیاں نظر آ رہی ہیں جو کسی بھی طرح پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حجم کے ساتھ میل نہیں کھاتیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں رفاعی کاموں کے نام پر ایک بڑی امریکی این جی او Creative Associate International Inc. (سی اے آئی آئی) کے نام پر کام کر رہی ہے۔ پشاور میں حیات آباد کے علاقے میں قائم دفتر سے اپنے پروگرام کی نگرانی کرتی ہے‘ اسکے آپریشن بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکی دلچسپی اور مفادات کے علاقوں تک محدود ہیں۔ یہ نام نہاد رفاعی تنظیم بجائے خود پراسرار پس منظر میں کام کرتی ہے۔
امریکی سرمائے سے کام کرنے والی‘ امریکہ میں رجسٹرڈ اس تنظیم کی خود امریکہ میں کوئی ہسٹری ہے نہ وجود۔ امریکی میں جس پتہ پر یہ کمپنی رجسٹرڈ کی گئی ہے وہاں اس کاکوئی وجود نہیں وہ ایک خستہ اور بے آباد جگہ ہے۔ جس تنظیم کا قیام پراسرار‘ پس منظر غیرواضح‘ ایڈریس جعلی ہو‘ اسکے مقاصد کس طرح واضح اور نیک قرار دیئے جا سکتے ہیں۔
امریکی خفیہ ایجنسیاں اس طرح کی تنظیمیں اپنی جیب میں رکھتی ہیں تاکہ بوقت ضرورت انہیں کام میں لایا جا سکے‘ اسی تنظیم یعنی سی اے آئی آئی کے کارندوں کو تحفظ دینے کے نام پر ’’بلیک واٹر‘‘ نامی کرایہ پر ملنے والی پرائیویٹ فوج کو بغیر کسی اجازت اور اطلاع کے خفیہ طو رپر پاکستان لایا گیا‘ اس این جی او کی اہمیت‘ موجودگی‘ کام کی نوعیت کوجاننے کیلئے یہی بات کافی ہے کہ بلیک واٹر اس کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ حقیقتاً بلیک واٹر( جس کا اب پاکستان میں نام تبدیل کر کے XE زی سروسز رکھ دیا گیا ہے) کو یہ نام نہاد رفاعی تنظیم ’’کور‘‘ دیتی ہے اور اس کے حقیقی مقاصد اور اقدامات پر پردہ ڈالے رکھتی ہے۔
زی سروسز عرف بلیک واٹر ایسی پرائیویٹ فوج ہے جو امریکی سی آئی اے مخصوص مقاصد کیلئے کرایہ پر حاصل کرتی ہے۔ کرایہ کے قاتلوں کا یہ گروہ امریکہ کے سب سے طاقتور ادارے کی سرپرستی میں ساری دنیا میں مجرمانہ کارروائیوں کیلئے منظم کیا گیا۔ عراق میں اس خونی اور خوفناک جرائم میں ملوث بلیک واٹر کی سرگرمیاں منظر عام ہو کر بدنام ہو گئیں‘ دنیا بھر میں میڈیا نے اسکی خوب تشہیر کر دی۔ پاکستان میں اس کی موجودگی کی اطلاعات ‘ پھر پشاور ہوٹل میںد ھماکے میں اسکے کارندوں کی موت نے ملک کے سکیورٹی اداروں اور ذرائع ابلاغ کو اس طرف متوجہ کر دیا۔ اب بلیک واٹر اپنا نام تبدیل کر کے ایکس ای سروسز بن کر وہی کام انجام دے رہی ہے۔
امریکی CIA خفیہ ایجنسی کے عمومی فرائض سے آگے بڑھ کر خطرناک عملی اقدامات کیلئے ایسی پرائیویٹ فوج کی بنیادیں اٹھا رہی ہے جو اسے پینٹاگان کی ضرورت سے آزاد کر دے اور وہ کسی ریاستی قانون‘ جغرافیائی حدود اور ادارتی نظم کی پابند بھی نہ ہو ‘ کسی بے چہرہ اور بے نام سربراہ کے اشارے پر اپنے فرائض انجام دیا کرے۔ ایکس ای پاکستان میں سابق فوجی افسروں‘ جوانوں‘ دیگر سکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کو بڑی تنخواہوں اور آرام دہ زندگی کا جھانسہ دیکر ایک ایسی عالمی فاشسٹ تنظیم کا رکن بنا رہی ہے جو امریکہ کے مقاصد کیلئے کام کرے لیکن امریکی ادارے یا حکومت کی ذمہ داری نہ ہو۔ انہی کے حکم پر انہی کے مقاصد کیلئے انجام پانے والے سنگین جرائم سے وہ خود کو الگ اور بری الذمہ قرار دے سکے‘ پرکشش ترغیب سے ترتیب پانے والا خود کار نظام جس میں داخل ہو جانے کے بعد باہر نکلنے کا کوئی دروازہ نہیں۔
ایک خبر کیمطابق 300 بلیک واٹر افراد بھارت نے ’’مونا بائو‘‘ میں تعینات کئے ہیں‘ بھارت سکیورٹی کیلئے اس طرح کے انتظامات کرے یہ اسکے عمومی رویے کیخلاف ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بلیک واٹر یا ا یکس ای اے منصوبہ میں وہ بھی امریکی منصوبے کا اتحادی ہے اور مفاداتی بھی‘ یہ ہمارے خلاف خطرناک پیش رفت ہو سکتی ہے۔
ایک طرف خفیہ طریقے سے پرائیویٹ فوج تشکیل پا رہی ہے اور دوسری طرف امریکی سفارت خانے میں توسیع کے نام پر قلعہ بندی کی جا رہی ہے۔ اسلام آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ماسٹر پلان میں تبدیلی کر کے امریکی سفارت خانے کو جو پہلے بہت بڑا قلعہ ہے مزید توسیع کیلئے 56 ایکڑ اراضی الاٹ کی گئی ہے۔ ایک طرف سفارت خانے کی غیرمعمولی وسعت اور قلعہ بندی‘ دوسری طرف فیلڈ میں خفیہ اداروں کی عملی کارروائیاں حدیں پھلانگ چکی ہیں۔
سفارت خانے کی توسیع کے بعد سٹاف کی تعداد بہت بڑھ جائے گی جو پہلے ہی عمومی سفارتی ضروریات سے کہیں زیادہ ہے‘ یہ غیرمعمولی تعداد ہمارے اور امریکی مفادات کی تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ موجودہ تعمیرات سفارت خانے کو چار گنا کر دیگی‘ مزید سفارتی عملے کی کوئی گنجائش نہیں تو پھر یہ توسیع کس لئے؟ ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو دی جانے والی امدادی رقوم حکومت کے ذریعہ نہیں براہ راست خرچ کی جائیں گی۔ ایم کیو ایم کا وفد ان دنوں خاموشی کے ساتھ براہ راست امداد کی اس ڈیل کیلئے امریکہ پہنچ چکا ہے‘ اے این پی پہلے ہی ’’آن بورڈ‘‘ ہے۔ دوسری این جی او الگ منہ کھولے بیٹھی ہے‘ بلوچستان کو رقوم دیں‘ اے این پی کو سرحد میں الگ‘ کراچی میں ایم کیو ایم ‘ اس سے نئے فسادات پیدا ہو ں گے اور تقسیم مفادات بھی۔ (جاری ہے)