جمعۃ المبارک ،22 ربیع الاول 1443ھ29 اکتوبر 2021ء
زیادتی کے مجرم کو نامرد بنانے کی سزا غیر اسلامی ہے۔ اسلامی نظریہ کونسل
اب اگراس قبیح فعل کے مرتکب افراد کو ایسی سزا دینا غیر اسلامی ہے تو پھر اسلامی نظریہ کونسل بسم اللہ کرے اور اس مکروہ فعل پر اسلامی سزا نافذ کرے۔ غیر شادی شدہ افراد کے لیے کوڑے اور شادی شدہ کے لیے سنگسار کرنے کا حکم دے۔ یہ تو کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو غیر اسلامی نہیں ہو گا، ویسے بھی ہمارے معاشرے میں شوقیہ خواجہ سرا بننے والوں کی تعداد کافی ہے اس لیے اس میں مزید اضافے کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ زیادتی وہ بھی کم سن بچوں اور بچیوں کے ساتھ ناقابل معافی سنگین جرم ہے۔ اس کی سخت سے سخت سزا ضروری ہے۔ ورنہ اخبار اٹھا کر یا ٹی وی لگا کر دیکھ لیں ۔ روزانہ درجنوں وارداتیں سامنے آتی ہیں۔ ان وحشی لوگوں کو ذرا بھر بھی خوف خدا ہے نہ قانون کا ڈر۔ بہتر تو یہی ہے کہ اسلامی قوانین کے مطابق سزائیں دی جائیں تاکہ معاشرے میں خوف پیدا ہو اور کسی کو ایسی حرکت کرنے کی ہمت نہ ہو۔ جو لوگ بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کر دیتے ہیں انہیں تو صرف اور صرف موت کی سزا ہی دینا ہو گی۔ ایک دو مجرموںکو چوراہوں پر پھڑکا دیں پھر دیکھیں کیسے بڑے بڑے شیطان سادھو بنے نظر آئیں گے۔ یہ بچے اور بچیاں ہمارا مستقبل ہیں‘ ان کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔ حکومت اور عدالتیں اس چمن کے محافظ ہیں انہیں اس چمن کے پھولوں کو مسلنے اور کچلنے والوں کی بیخ کنی کرنی ہو گی۔ اس طرح زیادتی کا جھوٹا الزام لگا کر کسی کو بدنام کرنے اور مخالفین کو پھنسانے کی وارداتوں کا بھی سدباب کرنا ضروری ہے تاکہ کوئی بے گناہ ناکردہ گناہوں کی سزا نہ بھگتے۔
٭٭٭
بھارتی شکست کا غصہ شامی اور کشمیریوں پر نکالنے لگے
بھارتی اپنی کرکٹ ٹیم کی پاکستان کے ہاتھوں شکست کا غم ابھی تک نہیں بھولے۔ اس کا ثبوت بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم میںتیزی ہے۔ میچ ہارنے کے بعد وہ بھی بہت بری طرح۔ بھارتی سارا غصہ پہلے تو شامی پر نکال رہے ہیں جس بہترین کھلاڑی کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہے اور بھارتیوں نے جان بوجھ کر ہارتے ہوئے میچ میں اس سے آخری دو اوور کرائے تاکہ ہار کا سارا ملبہ اس پر ڈالنے میں آسانی رہے۔ بھارتیوں کی یہ پلاننگ کامیاب بھی رہی ہے۔ محمد شامی کو غدار ، پاکستانی ایجنٹ اور نہ جانے اسے کیا کچھ کہہ رہے ہیں۔ اب شامی بے چارہ خاموشی سے یہ سہہ رہا ہے۔ اس کے بعددوسرے نمبر پر شامت آئی ہے کشمیریوں کی‘ جنہوں نے کھل کر پاکستان کی جیت کا جشن منا کر بھارتیوں کا کلیجہ چھلنی کر دیا۔ بھارتی وزیر منہ پھاڑ پھاڑ کر انہیں جیل ڈالنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ مزہ چکھانے کا کہہ رہے ہیں۔ مگر کشمیریوں نے پوری مقبوضہ ریاست میں پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے آتش بازی کر کے پاکستان زندہ باد کے نعروں کی گونج میں پاکستانی فتح کا جو جشن منایا وہ ساری دنیا نے دیکھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام تر بھارتی مظالم کے باوجودکشمیری کل بھی پاکستان کے ساتھ تھے آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ بھارتی اٹوٹ انگ کا خواب جلدیا بدیر ٹوٹ کر بکھرنے والا ہے۔
٭٭٭
ٹریفک بلاک بھائی دولہے کو کاندھے پر اٹھا کر دلہن کے گھر پہنچا
ایک کالعدم تنظیم کی طرف سے دھرنے اور اسلام آباد مارچ کے بعد مختلف شہروں میں سڑکوں پر جو صورتحال نظر آ رہی ہے۔ وہ پریشان کن ہونے کے ساتھ ساتھ مضحکہ خیز صورتحال بھی پیدا کر رہی ہے۔ انتظامیہ تو بڑے بڑے ٹرالوں کو کھڑا کر کے سڑکیں بند کر کے آرام سے چلی جاتی ہے۔ مگر عوام کے لیے سفر ایک عذاب بن جاتا ہے۔ کسی نے دفتر جانا ہوتا ہے تو کسی نے دکان پر۔ کوئی کالج جا رہا ہوتا ہے تو کوئی سکول۔ اب یہ سب بے چارے ان سڑکوں پر کھڑے ٹرالوں کے نیچے سے مرغا بن کر جس طرح نکلتے ہیں، اس پر تو بے ساختہ ہنسی نکل آتی ہے جو موٹر سائیکل سوار ہیں وہ ٹیڑھے ہو کر جبکہ پیدل چلنے والے بے چارے کبڑے ہو کر جب ان ٹرالوں کے نیچے سے برآمد ہوتے ہیں تو اس وقت ان کی حالت دیکھنے والی ہوتی ہے۔ دیکھنے والے ہنس رہے ہوتے ہیں اور یہ بے چارے غصے سے لال پیلے ہو رہے ہوتے ہیں۔ گزشتہ روز تو ایک بارات کی حالت دیکھنے والی تھی جب گاڑیاں بند ہونے کے سبب ایک بھائی نے اپنے دولہا بھائی کو کاندھوں پر بٹھا کر سفر طے کیا اور سب پیدل دلہن کے گھر پہنچے۔ جی ٹی روڈ اور اس سے ملحقہ رابطہ سڑکیں اور راستے بند ہونے سے لاکھوں افراد کو سخت پریشانی اور کوفت اٹھانا پڑ رہی ہے۔ دیکھتے ہیں یہ اچھے بھلے انسان کو ٹیڑھا اور کبڑا بنانے کی مشق کب تک جاری رہتی ہے۔ چلیں اس بہانے کافی لوگوں کو خندقیں پھلانگیں رکاوٹیں عبور کرنے کی پریکٹس بھی ہو جائے گی جو آئندہ کسی مشکل مرحلے میں کام آ سکتی ہے۔ خدا کرے یہ معاملہ جلدحل ہو اور سڑکیں راستہ بحال ہوں ۔ اس طرح کے کاموں سے ہمیشہ عوام کو تکلیف اٹھانا پڑتی ہے جن کی تعلیم روزگار اور آمدورفت میں رکاوٹ پڑتی ہے۔
٭٭٭
کتابوں اور سٹیشنری کی قیمتوں میں سو فیصد اضافہ ہوگیا
مہنگائی کا اثر ہر چیز پر پڑا ہے۔ اسے ہم بداثرات بھی کہہ سکتے ہیں۔ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس سے محفوظ رہی ہو۔ جب تک سکول کالج بند تھے۔ والدین کو فیسں ، کتابوں اور یونیفارم کی طرف سے ٹھنڈی ہوائیں آ رہی تھیں۔ کیونکہ ان کی خریداری کا کام ٹھپ تھا۔ مگر اب سکول کالج کھل گئے ہیں تو یہ تینوں بلائیں منہ کھولے والدین کے سامنے کھڑی ہو گئی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ خطرناک سٹیشنری کی خریداری ہے۔ ہمارے ہاں سکول مالکان کی پبلشرز سے ملی بھگت کی بدولت سٹیشنری مہنگی سے مہنگی ہو چکی ہے۔ کتابوں ، کاپیوں ، پنسل اور پین کی خریداری ہو یا ربڑ یا جیومیٹری خریدنا ہو یا پھر اچھا سا سکول بیگ۔ ان سب کی خریداری تب ہی ممکن ہے جب آپ کی جیب بھاری ہو گی۔ ہر سکول کالج نے مہنگی کتابیں ، کاپیاں لگوائی ہیں تاکہ نجی سکول کالج مالکان کی جیب بھاری سے بھاری اور والدین کی ہلکی سے ہلکی ہوتی رہے۔ تعلیم پہلے مہنگی تھی اب کتابیں اور سٹیشنری کا سامان بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو رہا ہے۔ اس حالت میں تعلیم عام کرنے کے حکومتی دعوئوں پر کون یقین کرے گا۔ تعلیم عام کہاں ہو گی۔ حکومت اگر واقعی تعلیم عام کرنا چاہتی ہے تو اسے نجی سکولوں کی فیسوں میں کمی ، سٹیشنری و کتابوں کی قیمتوں کو سختی سے کنٹرول کر کے مناسب قیمت پر لانا ہو گا۔