اب جو تاحشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا ؐ
ربیع الاول کی برکت میں کیا کلام کہ عالم کے پروردگار نے قیامت تک کے لیے اپنی مکمل ہدایت کے لیے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا۔ خالق کائنات نے خود آپ ؐ کو رحمت للعلمین قرار دیا۔ اس ماہ میں اس ہستی کا ظہور ہوا جس کے لیے تمام زمین کو مسجد بنا دیا گیا۔ یہ اسی شخصیت مبارکہ کا فیض ہے کہ ظُلمات فروشوں کی رات کو شکست ہوئی اور آپ کے عدل اور میزان کا سورج طلوع ہوا اور سورج بھی وہ جو قیامت تک کے لیئے روشن اور قائم ہے۔ انسانیت کو وہ شرف اور سہارا بخشا جو اسے کسی شر کے آگے جھکنے نہیںدیتا۔ گرامی قدر غامدی صاحب بتاتے ہیں کہ آپ ؐکی شرف اور اعزاز کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں آپ کو اصل نام احمد کی بجائے محمد کے نام سے مخاطب کیا جو معنوی اعتبار سے لقب ہے۔ صرف سورئہ صف میں جہاں حضرت مسیح کی بشارت آپ کے بارے میں نقل ہوئی ہے ، اُس میں آپ کا نام احمد آیا ہے۔ اس میں بھی کوئی دوسری بات نہیں کہ آپ کی شخصیت فقط ایک دن یا مہینے کی نہیں بلکہ ہر روز اور ہرلمحے کی ہے۔انسانی زندگی کا وہ کو ن سا ایسا پہلو ہے جس کے بارے میں آپ نے اپنی سیرت و کردار سے قیامت تک کے لیے نمونہ بھی انسانیت کے لیے قیمتی اثاثے کی شکل میں نہ چھوڑاہو۔ آپ ؐ کے سوا ازل سے لے کر ابد تک کوئی شخصیت ایسی نہیں گذری ہے نہ آئے گی جس نے یہ کہا ہو کہ ( اے قریشیو! ) میں اس (دعوی نبوت ) سے پہلے تمھارے درمیان ایک عمررہا ہوںکیا تم نہیں سمجھتے۔ ( سورہ یونس 16/10) ۔ ویسے تو بطور مسلمان اور آپ ؐ کا اُمتی ہونے کے ناطے ہمیں ہر وقت سیرت مبارکہ کو جاننے اور اس پر عمل کرتے رہنا چاہیے۔ بلکل اسی طرح جس طرح ہم رمضان کے مہینے میں اپنے رب سے عام دنوں کی نسبت زیادہ تعلق استوار کرتے ہیں اسی طرح ربیع الاول کے مہینے میں ہمیں چاہیے کہ سیرت کا مطالعہ کریں اور اپنی زندگیوں کو اس روشنی سے منورکریں۔ سیرت مبارکہ پر ہر زبان میں کُتب کا ایک وسیع ذخیرہ ہے۔ اس حوالے سے سید سلمان ندوی کے خطبات کا مجموعہ ’’خطبات مدراس‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا، کو بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے اور ذخیرہ سیرت میں اہم اضافہ ہے۔ سید سلیمان ندوی جو علامہ شبلی نعمانی کے شاگرد رشید تھے انہوں نے 1925ء میں جنوبی ہند کی ’’اسلامی تعلیمی انجمن‘‘ کی فرمائش پر سیرت نبویؐ کے مختلف پہلوئوں پر آٹھ خطبات دیے تھے۔خطبات کے موضوعات سیرۃ نبوی ؐکا تاریخی پہلو، سیرۃ نبوی ؐکی کاملیت، سیرۃ نبوی ؐکی جامعیت،سیرۃ نبوی ؐ کی عملیت ہیں۔خطبات میں بعض مقامات پر سیرۃ محمدی ؐکا دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرت سے موازنہ ہے۔ مثال کے طور پر حضرت عیسی علیہ السلام جب سولی پر چڑھتے ہیں تو بیتابانہ زبان سے یہ الفاظ نکلتے ہیں کہ ’’اے میرے خداوند! تونے مجھے کیوں چھوڑ دیا‘‘۔ لیکن محمد رسول اللہ ؐجب آخری سانسیں لیتے ہوتے ہیں تو زبان پر یہ کلمہ ہوتا ہے’’اے میرے خداوند! اے میرے بہترین ساتھی۔آپ ؐکی سیرت کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ آپ ؐبہ حیثیت ایک پیغمبر کے اپنے پیرئوں کو جو نصیحت فرمائی اس پر سب سے پہلے خود عمل کرکے دکھایا ۔ آپ ؐ کے شب و روز میں شاید ہی کوئی ایسا لمحہ ہو جب آپ کا دل خدا کی یاد سے اور آپ کی زبان ذکرِ خدا سے غافل ہوئی ہو۔ سید سلیمان بتاتے ہیں کہ ہم اوائل فروری 1924ء میں حجاز و مصر سے واپس آرہے تھے، اتفاق سے مشہور شاعر ڈاکٹر ٹیگور بھی اسی جہاز میں امریکہ کے سفر سے واپس ہورہے تھے۔ ایک رفیق نے ان سے سوال کیا کہ برہمو سماج کی ناکامی کا سبب کیا ہے؟ حالانکہ اس کے اصول بہت منصفانہ صلح کل کے تھے۔ اس کی تعلیم تھی کہ سارے مذہب سچے اور کُل مذہبوں کے بانی اچھے اور نیک لوگ تھے۔ اس میں عقل اور منطق کے خلاف کوئی چیز نہ تھی۔ وہ موجودہ تمدن، موجودہ فلسفے اور موجودہ حالات کو دیکھ کر بنایا گیا تھا، تاہم اس نے کامیابی حاصل نہ کی۔ فلسفی شاعر نے جواب دیا کہ یہ اس لیے ناکام ہوا کہ اس کے پیچھے کوئی شخصی زندگی اور عملی صورت نہ تھی جو ہماری توجہ کا مرکز بنتی ۔ سید بتاتے ہیں کہ مذہب نبی کی سیرت اور عملی زندگی کے بغیر ناکام ہے۔ یہ آپ ؐ کی سیرت کا ہی فیض ہے کہ مسلمانوں اور رومیوں میں جنگ ہے، صحابہ کرام فوج کے سپاہی ہیں۔ سپہ سالار ان مسلمان سپاہیوں کی حالت دیکھنے کے لیے اسلامی کیمپ میں چند جاسوس بھیجاتا ہے۔ وہ یہاں آکر اور مسلمانوں کی حالت دیکھ کر واپس جاتے ہیں تو سرتا پا اثر میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ وہ جاکر رومی سپہ سالار کو بتاتے ہیں کہ ’’ وہ راتوں کے راہب ہیں اور دن کے شہسوار‘‘ یہی اسلام کی اصل زندگی ہے۔دنیا کی موجود تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ایک مثالی مملکت کی تشکیل و قیام کے لیے فلسفیوں اور مذہبی مثالیت پسندوںنے ہر دور میں بحث کی ہے اور بعض عملی تخیل پرستوں نے ان مباحث کی روشنی میں ان خیالات کو عملی طور پر وجود میں لانے کی بھی کوششیں کی ہیں ۔ سقراط و افلاطون سے لے کر ایچ جی ویلز نے تخیلیاتی مثالی ریاست کا نقشہ پیش کیا ہے ۔ سقراط نے جہاں ریاست کا نقشہ پیش کیا وہاں ساتھ ہی اقرار بھی کیا کہ اس کا عملی نمونہ آسمانوں پر ہی بن سکتا ہے۔ لیکن یہ بات تاریخی حقیقت کا درجہ حاصل کرچکی ہے کہ رسول کریم ؐ کے علاوہ دنیا کے روحانی و سیاسی رہنمائوں میں سے کسی نے بھی اپنے خیالات و الہامات کی روشنی میں کسی مثالی مملکت کے قیام کے لیے کامیاب کوشش نہیں کی۔ آپ ؐ کی ذات ہی وہ مدبرِ اعظم ہے جس نے قیامت تک کے لیے ایک مثالی مملکت کے سیاسی، معاشی، سماجی سمیت ہر شعبے کے لیے قابل عمل خاکے اور عملی نمونے اپنے اسوہ حسنہ کی شکل میں پیروی کے لیے چھوڑیں ہیں ۔ حضور اکرم ؐنے ایسے نصب العین کو انسانیت کے سامنے پیش کیا جس میں انسانی فطرت اور کوتاہیوں کو سامنے رکھا گیا ۔ آپؐ نے مملکت کے قیام کے لیے انسانی زندگی کے ہر پہلو اور انسانی استعداد کو سامنے رکھا ، جیسے کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نسان پر اسکی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ مغرب میں آزادی ِرائے کے نام پر گستاخانہ خاکوں کا جو سلسلہ شروع ہے، ہر مسلمان کا غم و غصے کا اظہار کرنا فطری عمل ہے۔ہمیں مغرب سے احتجاج بھی کرنا چاہیے اور ہر وہ حربہ بھی اختیار کرنا چاہیے جس سے اسے احساس ہو کہ مسلمانوں کے جذبات کی حساسیت اس باب میں کیا ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ آپؐکے اسوہ حسنہ کو عام کریں۔ جس کے لیے سب مئوثر ذریعہ ہمارا عمل ہے۔ ہم نے اپنے عمل سے ثابت کرنا ہے کہ ہم اس پیغمبر کی امت ہیں ہیں جو خدا کی حتمی ہدایت کا قیامت تک آخری ذریعہ ہیں۔مغرب کے فتنہ باز اور گستاخ لاکھ کوشش کرلیں آپؐکی سیرت مبارکہ کا سورج قیامت تک روشن رہے گا۔
تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی
اب جو تاحشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا