بے ثمر جمہوری تجربے
جمہوریت کو عنانِ اقتدار سنبھالنے اور اقتدار کی منتقلی کے لیے انسانی ذہن کا عروج سمجھا جاتاہے۔ انسان صدیوں کے تجربات کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ فی الوقت جب تک کہ کوئی اس سے بہتر نظام سامنے نہ آجائے جمہوریت اور جمہوری طرزِ حکومت بہترین ہے۔ اگرچہ اس کی اپنی بے شمار خامیاں ہیں اور ان خامیوں سے اکثر لوگ واقف ہیں لیکن خوبیاں اتنی زیادہ ہیں کہ ان خامیوں کے باوجود اسے قبول کرلیا گیا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی سا بھی نظا م حکومت کہیں بھی قابل ِ قبول نہیں ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک میں جمہوری نظامِ حکومت اپنایا گیا ہے اور جن ممالک میں یہ نظام نہیں اپنایا گیاان ممالک میں کوشش کی جارہی ہے کہ وہاں بھی جمہوری نظام ِ حکومت اپنایا جائے ۔ پاکستان کے تمام باشعور لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کا نظامِ حکومت جمہوری ہونا چاہیے۔ پاکستان کے بانیان بھی اسی بات کے دعوی ٰ دار تھے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہوگا یہاں تک کہ پاکستان خود جمہوریت ہی کی پیداوار ہے اگر 1946 ء کے انتخابات میں مسلم لیگ جو کہ مطالبہ پاکستان کرنے والی جماعت تھی کو اکثریت حاصل نہ ہوتی یا مسلم لیگ کو مسلم اکثریتی ووٹ نہ ملتا تو پاکستان شاید کبھی وجود میں نہ آسکتا۔ لہذا پاکستان خود ایک جمہوری عمل کے نتیجے میں وجود میں آیا۔
بدقسمتی سے پاکستان میں جو غیر جمہوری حکومتیں آئیں اور جنھیں عرف ِ عام میں مارشل لاء کہاجاتاہے وہ بھی بدترین قسم کی Dictatorships نہیں تھیں بلکہ ان میں بھی بہت حد تک لچک رکھی گئی اور جمہوری رویے اپنانے کی کوشش کی گئی تاہم پھر بھی ان مارشل لاؤںسے ملک میں جمہوری اداروں کو فروغ نہ مل سکا اور ملک کو مجموعی طور پر نقصان پہنچا اب جبکہ آخری مارشل لاء سے نجات ملے کافی عرصہ ہوگیا اور ملک میں ایک کے بعد ایک جمہوری حکومتیں آتی رہی ہیں۔ سب کی یہی رائے ہے کہ پاکستان میں اب کبھی مارشل لاء نہیں آنا چاہیے اور جمہوریت کو چلنے دینا چاہیے اگرچہ کہ عملی طور پر ہمارے لوگوں کی اکثریت جن میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں
خواہ وہ عوام ہوں یا وہ تاجر اور بزنس مین ہوں، صنعت کار ہوں، بیوورکریٹس ہوں یا خود سیاستدان سب کے سب جمہوریت کے راستے میں شعوری یا غیر شعوری طور پر روڑے اٹکا رہے ہیں اور جمہوری حکومت کو ناکام ثابت کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں ۔یہ ایک عجیب صورتحال ہے جس کی شاید بہت واضح الفاظ میں تشریح نہ کی جاسکے لیکن ایسا ہورہا ہے۔کیا ایسا نہیں ہے کہ جب ہم ایک بہت ہی لمبی جدوجہد کے بعد جمہوری حکومت بحال کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کے فورا بعد جمہوری حکومت ہمیں ناکام ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ہم اس حکومت سے کبھی مطمین نہیں ہوتے اور بعض اوقات تو جمہوریت کے نام پر ایک Dictatorship قائم ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہوتی ہے یہ بھی ہوتاہے کہ جمہوریت کے نام پر جو حکومت وجود میں آتی ہے وہ اکثر اوقات مضحکہ خیز ہوتی ہے وہ بعض ایسے کام کررہی ہوتی ہے جن پر اہل علم لاحول پڑھتے ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے اور بعض ایسے بہت ضروری معاملات جن کو فوری توجہ دینی چاہیے کی طرف کوئی توجہ ہی دیتی ہوئی نہیں دکھائی دیتی ہے یہ کیا Phenomenon ہے؟ یہ کیا صورتحال ہے؟ ایسا کیوں ہوتاہے کہ جمہوریت آجاتی ہے تو ہماراسفر جمہوریت کے مخالف سمت میں شروع ہوجاتاہے ؟کیا یہ حقیقت نہیں کہ 1999 میں جمہوری حکومت کے خاتمے سے پہلے تمام سیاسی جماعتیں نواز شریف سے نجات کے لیے One Point Agenda پر نواب زادہ نصراللہ خان کی قیادت میں متحد تھیں اور بے نظیر بھٹو صاحبہ ، علامہ طاہر القادری اور عمران خان سمیت تمام سیاستدانوں نے جنرل مشرف کو ویلکم کیا تھا اور اس سے پہلے دونوں دفعہ بے نظیر حکومت کو گرانے میں اہم ترین کردار نواز شریف کا تھا ۔ جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں ان کی ہم رکاب تھیں۔دنیا میں جہاں جہاں جمہوریت پہنچی اس نظام نے اپنے مثبت اثرات معاشرے پر ڈالے اور معاشرے نے ترقی کی ۔ جمہوری نظام حکومت کے اس اصل ثمر سے فیض یاب ہونے کے لیے جو چیز اس کا بنیادی جزو لازم قرار پاتی ہے وہ جمہوری سیاسی جماعتیں ہیں ۔ جمہوری سیاسی جماعتیں دراصل جمہوری حکومت کی عمارت کی دیواریں اور ستون ہوتی ہیں ۔ اگر جمہوری سیاسی جماعتیں ملک میں موجود ہوں اور وہ موثر ہوں تو ایک موثر حکومت وجود میں آئے گی جس کے مثبت اثرات معاشرے پر ضرور پڑیں گے اور معاشرہ ترقی کرے گا۔ لیکن اگر موثر جمہوری سیاسی جماعتیں معاشرے میں موجود ہی نہ ہوں تو دراصل یہ صورتحال بالکل ویسی ہی ہے جیسے دیواروں کے بغیر ہی چھت کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ ایسا اول تو ہونہیں سکے گا دیواریں نہیں ہوں گی تو چھت کس پر ٹکے گی۔ لیکن اگر کوئی دوچار موٹے موٹے ستون کھڑے کرکے آپ نے چھت ڈال بھی دی تو وہ عمارت کسی کام نہیں آئے گی جب تک کہ اس کے اردگرد دیواریں بناکر اسے ایک مکمل عمارت کی شکل نہ دے دی جائے ۔ہمارے ہاں بدقسمتی سے جس قسم کی جمہوریت آتی ہے ۔اس میں ایسے ہی ہوتاہے کہ دیواریں(یعنی سیاسی جماعتیں) تو موجود نہیں ہیں لیکن دوچار موٹے موٹے ستون(نام نہاد سیاستدان) کھڑے کرکے چھت ڈال دی جاتی ہے ۔ یہ نام نہاد سیاست دان خود کو سیاسی جماعتیں کہتے ہیں۔ لہذاایسی بے درودیوار عمارت میں ہوا ایک طرف سے داخل ہوتی ہے تو دوسری طرف سے نکل جاتی ہے دوسری طرف سے داخل ہوتی ہے تو پہلی طرف نکل جاتی ہے عمارت وجود میں نہیں آتی اور اس عمارت سے جو فوائد حاصل کرنا مقصود ہوتاہے وہ فوائد بھی حاصل نہیں ہوپاتے۔ مطلب یہ کہ چند ایک شخصیات ہیں جو خود کو سیاسی جماعتیں قرار دیتی ہیں۔ انھوں نے خود کو خود ہی لیڈر بنا رکھا ہے اور وہ اس بات پر ایمان بھی رکھتے ہیں کہ قوم کے نجات دہندہ وہی ہیں ۔ ان کے پاس نہ تو کوئی وثرن ہے نہ کوئی واضح پروگرام یا منشور۔ وہ اقتدار میں آبھی جائیں تو انھیں سمجھ ہی نہیں آرہی ہوتی کہ اب انھیں کرنا کیا ہے ۔ نتیجتاً وہ بونگیاں مارتے ہیں جن سے ایک طرف تو جگ ہنسائی ہوتی ہے اور دوسری طرف ملک میں انار کی پھیل جاتی ہے ۔ قوم مایوس ہوتی ہے تو کسی طالع آزما کو آگے آنے کا موقع مل جاتا ہے۔ نواز شریف شہباز شریف صاحب ایک سیاسی جماعت ہیں اور اگر ان کو اس میں سے Minus کردیں توسیاسی جماعت ختم ہوجاتی ہے آصف علی زرداری بلاول بھٹو صاحب ایک سیاسی جماعت ہیں اگران کو اس میں سے Minus کردیں تو سیاسی جماعت ختم ، مولانا فضل الرحمان صاحب بھی ایک سیاسی جماعت ہیں آپ ان کو اس جماعت سے Minus کردیں تو سیاسی جماعت ختم، اسفندیار ولی ایک سیاسی جماعت ہیں آپ ان کو اس جماعت سے Minus کردیں تو سیاسی جماعت ختم ،پی ٹی آئی اور عمران خان کی بھی یہی صورت حال ہے۔ کیا دنیا میں سیاسی جماعتیں ایسی ہوتی ہیں؟
؟؟؟ یہ تو شخصیات ہیں سیاسی جماعتیں تو نہ ہوئیں۔اور پھر ان نام نہاد سیاسی جماعتوں میں قدیم بادشاہت کی طرح باپ کے بعد بیٹا اور بیوی کے بعد شوہر جانشین قرار پاتاہے ۔ کیا ان کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ ہے کوئی اندرونی انتخابی نظام ہے کس کو عہدے دار کس کو وزیر یا کس کو وزیر اعظم بنایا جاتاہے ؟ کیا کوئی اصول ہے یا جس پر صاحب کی نظرِکرم پڑ جائے وہ وزیراعظم بن گیا ۔ کیا بات ہے جناب! یہ تو شہنشاہت اور بادشاہت کی بھی بدترین صورت ہے، محمد شاہ رنگیلے کے بارے میںکہا جاتاہے کہ کہ انھوں نے اپنے گھوڑے کو بھی وزیر کا درجہ دے دیا تھا اور وہ گھوڑا باقاعدہ پوشاک پہن کر وزیروں کی قطار میں کھڑا ہوا کرتا تھا کچھ ایسا ہی حال آج ہمار ابھی ہے ۔