ہمارے بے ثمر جمہوری تجربے (حصہ دوئم)
از پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد
ہمارے ہاں کوئی جمہوری سیاسی جماعتیں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں ۔ایسی جمہوری سیاسی جماعتیں جن کے اندر خود جمہوریت ہو اور جن کی جڑیں عوام میں ہوں۔ اس کو ہم اپنے معاشرے کی اصطلاحات میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہرجمہوری سیاسی جماعت کی تنظیم یونین کونسل لیول پر ہوجو وہاں کے عوام کی (جو اس سیاسی جماعت کے نظریات سے اتفاق رکھتے ہوں) منتخب کردہ قیادت پر مشتمل ہو یعنی ایک یونین کونسل کے لوگ وہاں سے ایک سیاسی جماعت کے عہدیداران منتخب کریں ۔ بہت سی یونین کونسلز کے تمام عہدیداران مل کر ووٹ ڈال کر اپنی تحصیل کے عہدیداران کو منتخب کریں ۔ پھر تمام تحصیلوں کے عہدیداران اور تمام یونین کونسلز کے عہدیداران مل کر اپنی ضلعی قیادت کو منتخب کریں اور پھر تمام ضلعوں کے، تحصیلوں کے اور یونین کونسلز کے عہدیداران مل کر اپنی ڈویثرنل اور پھر صوبائی قیادت منتخب کریں اور پھر تمام صوبوں کے ، یونین کونسلز ، تحصیلوں، ضلعوں اور ڈویثرنوں کے عہدیداران مل کر ووٹ ڈال کر اپنی ملکی سطح کی قیادت منتخب کریں ۔ان سیاسی جماعتوں کے لیے اندورنی انتخابات مخصوص وقفوں سے باقاعدہ ہوا کریں ۔ یوں جمہوری سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت قائم کرکے اپنی قیادت کو نہ صرف منتخب کریں بلکہ اسی طریقہ کار پر عمل کرنے کے نتیجے میں ان کی قیادت کی تربیت بھی ہو۔ اس کی قیادت کی خوبیاںبھی ابھر کر سامنے آئیں اور یہ سالوں کے تجربے کو سامنے رکھ کر اپنا ایک واضح منشور یا پروگرام بنائیں جو قوم کو درپیش مسائل کا کافی و شافی حل پیش کرے۔ یونین کونسل لیول پر کسی سیاسی جماعت کا کارکن جب اس سطح کی سیاست میں حصہ لے تو پھر وہ ابھرتے ابھرتے تحصیل کی سطح تک پہنچے ، تحصیل کی سطح سے ابھرتے ابھرتے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر ضلع کی سطح کا عہدیدار بنے اور پھر ڈویثرن کی سطح کا اور اسی طرح سالوں کی تربیت کے نتیجے میں وہ صوبائی اور مرکزی سطح کا لیڈر بن کر سامنے آئے ۔ پھر یہ لوگ جنھوں نے یونین کونسل لیول سے اپنا کریئر شروع کیا ہو اور انھوں نے مختلف عہدوں پر مختلف وقتوں میں کام کیا ہو وہ لوگ جب مرکزی قیادت بنیں اور انتخابات کے نتیجے میں وہ سیاسی جماعت جب اقتدار میں آئے تو اس کے وہ لیڈران، وہ رہنما جنھوں نے سالوں سیاست کی، سالوں سیاست سیکھی ، سالوں قیادت کی، سالوںاپنی قیادت کی خوبیوں کو پالش کیا جب وہ اوپر کے لیول پر آکرحکومت سنبھالیں تو ان کے پاس پورا ایک پروگرام ہوگا جسے وہ سالوں سوچتے رہے ہوں گے کہ وہ اقتدار میں آکر اپنے عوام کی کیسے خدمت کریں گے ۔ معاشرے کی کون کون سی برائیاں ختم کریں گے اور کیسے عام آدمی کی زندگی میں آسانیاں پیدا کریں گے ۔ ملک کو کیسے ترقی واستحکام دیں گے ۔
غرض ان کے پاس ایک ویثرن ہوگا ان کے پاس معلومات ہونگی ان کے پاس علم ہوگا اور پھر وہ سول بیوروکریسی اور فوجی بیوروکریسی کو اپنے ویژن کے مطابق لیڈکریں گے۔ فوجی اور سول بیوروکریسی ان کا مذاق نہیں اڑاسکے گی بلکہ ان کے علم سے، ان کے ویثرن سے، ان کی خداداد صلاحیتوں سے متاثر ہوگی، معترف بھی ہوگی، اور خوشی سے پیروی بھی کرے گی۔ وہ لوگ جو اس طرح کی سیاسی تربیت سے گزر کر کندن بن کر سامنے آتے ہیں وہی حقیقی لیڈر ہوتے ہیں ایسے راہنما ہی قوموں کے نجات دہندہ ثابت ہواکرتے ہیں۔آپ ذرا سوچئے ! کیا ہمارے معاشرے میں ایسے لیڈر موجود ہیں ؟؟؟کیا ہمارے معاشرے میں ایسی سیاسی جماعتیں موجود ہیں ؟؟؟ کیا ہمارے معاشرے میں یہ سارا عمل کہیں ہوتاہے ؟؟؟ ہمارے ملک میں کل سو، ڈیڑھ سو افراد ہیں جو اپنے آپ کو سیاسی جماعتیں کہتے ہیں جو اپنے آپ کو رہنما کہتے ہیں دراصل انھوں نے خود ہی اپنے آپ کو لیڈر بنالیا ہے اور وہ کسی اونچی کرسی پر چڑھ کربیٹھ گئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم لیڈر ہیں حکومت ہمارے حوالے کردو ہم یہ کردیں گے وہ کردیں گے۔لیکن اگر آپ ان سے یہ پوچھیں کہ حضرت آپ کیا کریں گے؟ تو شاید ان کے پاس کوئی جواب ہی نہ ہو۔
کیا اس وقت پاکستان کی نام نہاد سیاسی جماعتوں کے پاس پاکستان کے لیے کوئی واضح پروگرام ہے ؟ پاکستان جو مسائل میں گھرا ہوا ہے اور ایسے ایسے مسائل
ہیں کہ جس مسئلے کی طر ف نظر دوڑائیں انسان چکرا کررہ جاتاہے ۔ کیا سیاسی جماعتوں کے پاس ایسی کوئی بصیرت موجود ہے کہ وہ ان مسائل کا کوئی حل نکال
سکیں یا وہ کوئی ایسا حل پیش کریں جو ان کے نزدیک بالکل درست ہواور ملک و قوم کو ہر طرح کے مسائل سے نجات دلا سکے۔ ہر سیاسی جماعت اپنا اپنا پروگرام قوم کے سامنے پیش کرے اور کھل کر پیش کرے ۔سیاسی جماعتوں کے سربراہان میڈیا کے سامنے آیا کریں اور اپنے اپنے پروگرام کے حق میں دلائل دیا کریں اور بتائیں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔اور ان کے اس منشور اور پروگرام کی بنا پر عام لوگ ان کو ووٹ دیں؟
کیا حل ہے میاں نواز شریف صاحب کے پاس کشمیر کے مسئلے کا اور کیا حل ہے جناب آصف علی زرداری صاحب کے پاس کشمیر کے مسئلے کا؟ اور کیا حل ہے اس مسئلے کا جناب عمران خان کے پاس اور جناب چوہدری شجاعت حسین صاحب ،مولانا فضل الرحمان اور اسفندیار ولی کے پاس اس مسئلے کاکیا حل ہے؟ وہ اپنا حل کھل کرقوم کے سامنے رکھیں، پتا چلے کہ وہ کتنا وثرن رکھتے ہیں اور قوم کو کیسے اس صورتحال سے نجات دلاسکتے ہیں۔ کیا طریقہ ہے پاکستان میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا ؟ لوڈشیڈنگ کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے نواز شریف صاحب کے پاس کیا پروگرام ہے۔ کیوں اگلے الیکشن میں لوگ میاں نواز شریف صاحب کو ووٹ دیں؟؟ آٹے کی قیمت کو کم رکھنے کے لیے یا کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے کیا لائحہ عمل ہے سیاستدانوں کے پاس ؟کیا پروگرام پیش کرتی ہے پیپلز پارٹی دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے جو کہ دوسری سیاسی جماعتوں سے مختلف ہے۔ کیا ہمارے ہاں جمہوری سیاسی جماعتوں کا کوئی وجود ہے اور کیا ان کا کوئی ایک دوسرے سے مختلف اور بہتر منشور ہے ؟؟؟پس اگر ملک میں واقعی جمہوریت کو فروغ دینا ہے تو جمہوری سیاسی جماعتوں کا وجود ناگزیر ہے اور جب تک حقیقی جمہوری سیاسی جماعتیں وجود میں نہیں آتیں ہمارا جمہوری تجربہ بے ثمر ہی رہے گا جسے کسی بھی وقت کوئی جرنیل آسانی سے ٹھکانے لگاسکے گا۔لہذا اب یہ سیاستدانوں خصوصاً جناب میاں نواز شریف اور جناب آصف علی زرداری کی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ واقعی پاکستان اور پاکستان میں جمہوریت کی بقاء اور ترقی چاہتے ہیں تو وہ پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلزپارٹی کو حقیقی جمہوری سیاسی جماعتیں بنائیں۔ ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی پاکستان کے ہر صوبے ، ہر ڈویثرن، ہر ضلع ، ہر تحصیل اور ہر یونین کونسل کی سطح پر منتخب شدہ تنظیمیں ہوں، ان کے اندورنی جماعتی انتخابات مخصوص وقفوں کے بعد باقاعدہ ہوا کریں اور ان کی نیچے سے لے کر اوپر تک کی تمام قیادت باقاعدہ پارٹی الیکشن کے ذریعے منتخب ہوا کرے، یقین جانیے پاکستان کی بقاء اور ترقی کے لیے یہ اتنی بڑی خدمت ہوگی کہ اگر مذکورہ دونوں سیاست دان صرف یہی ایک کارنامہ انجام دے دیں تو مستقبل کا مورخ ان کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے گا۔ مگر اے کاش اے کاش ۔