پشاور مدرسہ میں ٹائم بم سے دہشتگردی کی سفاکانہ واردات ‘ بھارت کے ملوث ہونے کا عندیہ
پشاور کے مدرسہ جامعہ زبیریہ میں بم دھماکے کے نتیجہ میں چار طلبہ سمیت آٹھ افراد شہید اور بارہ اساتذہ سمیت 136‘ افراد زخمی ہوگئے۔ زخمیوں میں زیادر تر جھلس گئے جن میں بعض کی حالت نازک بتائی جاتی ہے اور شہادتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ دھماکے کے وقت مدرسے میں قرآن پاک کی کلاس جاری تھی کہ اس دوران پہلے سے بیگ میں رکھا گیا پانچ سے چھ کلو گرام دھماکہ خیز مواد زوردار دھماکے سے پھٹ گیا۔ سی سی پی او پشاور کے بقول یہ دھماکہ صبح ساڑھے آٹھ بجے کے قریب دیر کالونی میں واقع مسجد ومدرسے میں ہوا۔ صوبائی وزیر خیبر پی کے تیمور جھگڑا نے دہشت گردی کی اس واردات میں آٹھ افراد کی شہادت کی تصدیق کی ہے۔ صوبائی وزیر ثقافت شوکت یوسفزئی نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں کافی عرصے سے امن تھا اور سکیورٹی بھی بہتر تھی جبکہ کوئٹہ‘ پشاور میں دہشت گردی تھریٹ الرٹ کے بعد سکیورٹی مزید سخت کردی گئی تھی۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دہشت گردی کے اس واقعہ میں بھارت ملوث ہو سکتا ہے۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پوری قوم اپنی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پی کے محمود خان نے شہداء کے لواحقین کو پانچ لاکھ روپے فی کس اور زخمیوں کو دو دو لاکھ روپے گرانٹ دینے کا اعلان کیا۔ چیئرمین کشمیر کمیٹی شہریار آفریدی کے بقول یہ حملہ یوم سیاہ کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم سے توجہ ہٹانے کی کوشش تھا۔ پشاور مدرسے پر حملہ ایک بزدلانہ حرکت ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور قومی سیاسی قائدین بلاول بھٹو زرداری‘ سراج الحق‘ مریم نواز‘ امیرالعظیم‘ لیاقت بلوچ‘ چودھری شجاعت حسین‘ چودھری پرویز الٰہی‘ مونس الٰہی‘ وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ اور وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے پشاور مدرسے میں ہونیوالی اس سفاکانہ دہشت گردی کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ بچوں پر حملہ بزدلانہ فعل ہے۔
پشاور کے مدرسے میں ایک کلاس روم کے اندر دہشت گردی کی اس گھنائونی واردات سے چھ سال قبل آرمی پبلک سکول پشاور میں کئے گئے خودکش حملے کی یاد تازہ ہو گئی ہے جس میں سکول کی پرنسپل‘ اساتذہ اور معصوم بچوں سمیت 170 سے زائد افراد کی شہادتیں ہوئیں۔ اس سفاکانہ واردات کے بعد قومی سیاسی اور عسکری قیادتوں نے حکومت کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں یکجہت ہو کر دہشت گردی کے خاتمہ کا متفقہ لائحہ عمل طے کیا جس پر عملدرآمد کیلئے 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا اور ملک بھر میں دہشت گردوں‘ انکے سہولت کاروں اور سرپرستوں کیخلاف اپریشنز کا آغاز کردیا گیا۔ اپریشن ضرب عضب‘ اپریشن ردالفساد‘ کومبنگ اپریشن اور اپریشن خیبر4 کے تحت دہشت گردوں کے ہر ٹھکانے کا سراغ لگا کر بھرپور کارروائی کی جاتی رہی جس سے دہشت گردوں کی عملاً کمر ٹوٹ گئی اور ملک میں امن و امان کی مستقل بحالی کے امکانات روشن نظر آنے لگے تاہم ہمارے سفاک دشمن بھارت کو پرامن پاکستان ایک آنکھ نہیں بھاتا چنانچہ اس نے یہاں دہشت گردی پھیلانے کیلئے کابل انتظامیہ کی معاونت سے افغان سرزمین کو استعمال کیا اور ’’را‘‘ کے حاضر سروس جاسوس دہشت گرد کلبھوشن یادیو کے ذریعے بلوچستان میں اپنا دہشت گردی کا نیٹ ورک بھی قائم کر دیا جس کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی نئی وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ بھارت تو شروع دن سے ہی پاکستان کی سلامتی کے درپے ہے اور اس معاملہ میں وہ کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اسکی دہشت گردی اور دہشت گردانہ ذہنیت کے ٹھوس ثبوت ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کے پاس ہی نہیں‘ سکیورٹی کے عالمی اداروں کے پاس بھی موجود ہیں جن کی بنیاد پر ایک امریکی جریدے نے دو ہفتے قبل اپنی رپورٹ میں بھارت کو عالمی نمبرون دہشت گرد قرار دیا ہے۔
اس تناظر میں ہمیں بھارتی سازشوں سے ہمہ وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اور عساکر پاکستان اس حوالے سے سرحدوں پر ہی نہیں‘ ملک کے اندر بھی بھارتی سازشیں ناکام بنانے کیلئے مکمل مستعد اور چوکس ہیں اور دہشت گردوں کیخلاف جاری اپریشن میں جانیں بھی قربان کررہی ہیں تاہم ملک میں سیاسی استحکام کی بھی اس وقت اشد ضرورت ہے تاکہ ہمارے اس مکار دشمن کو ہماری کسی اندرونی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ بدقسمتی سے آج ملک میں سیاسی استحکام کی صورتحال مثالی نہیں ہے اور حکومت اور اپوزیشن کے مابین جاری سیاسی محاذآرائی کے باعث انتشار اور عدم استحکام کی فضا اجاگر ہورہی ہے جس سے ہمارے دشمن کو فائدہ اٹھانے کا نادر موقع مل رہا ہے چنانچہ بلوچستان اور خیبر پی کے میں پے در پے ہونیوالی دہشت گردی کی وارداتیں ملک کی سلامتی کمزور کرنے کی بھارتی سازشوں کا ہی شاخسانہ ہے۔ ملک میں سیاسی انتشار کی فضا نمایاں ہوتی ہے تو اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے بھارتی ’’را‘‘ بھی سرگرم ہو جاتی ہے۔ یقیناً اسی صورتحال کے تناظر میں نیکٹا کی جانب سے گزشتہ ہفتے تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا تھا جس میں واضح طور پر اس امر کا عندیہ دیا گیا کہ پشاور اور کوئٹہ سمیت ملک کے متعدد علاقے دہشت گردی کے خطرے کی زد میں ہیں جس کیلئے بھارت کی جانب سے افغانستان کے راستے پاکستان میں اپنے دہشت گرد داخل کرنے کا خطرہ ہے۔ اس تھریٹ الرٹ کے بعد کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے پبلک جلسے کے موقع پر دہشت گردی کی واردات ہوئی اور گزشتہ روز پشاور کے مدرسہ میں دہشت گردوں کو سفاکانہ واردات کا موقع مل گیا جس کیلئے سی سی پی او پشاور کے بقول مدرسے میں ٹائم بم نصب کیا گیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان بھی گزشتہ روز ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے بھارت کی جانب سے پاکستان میں عدم استحکام کیلئے افغان سرزمین استعمال کرنے کا خدشہ ظاہر کرچکے ہیں اس لئے جہاں ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کو سکیورٹی کے انتظامات مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے وہیں بھارتی گھنائونی سازشوں کے مقابلہ کیلئے اندرونی استحکام اور قومی یکجہتی کی فضا استوار کی جانی بھی ضروری ہے۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر ملک کی سلامتی کیخلاف دشمن کی بڑھتی ہوئی سازشوں کے پیش نظر قومی سیاسی اور عسکری قیادتوں کے مابین آج پھر اسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے جو سانحہ اے پی ایس کے بعد دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کو نکیل ڈالنے کیلئے استوار ہوا تھا۔ پشاور مدرسے میں ہونیوالی دہشت گردی اس حوالے سے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کیونکہ ملک کی سلامتی کے تحفظ کے اقدامات اٹھانے کی اس وقت زیادہ ضرورت ہے۔ ملک ہے تو ہماری سیاستیں بھی چلیں گی اور حکمرانیاں بھی قائم دائم رہیں گی۔ اگر خدانخواستہ ملک ہی نہ رہا تو پھر کون سے جزیرے پر جا کر سیاست کا شوق پورا کیا جائیگا اس لئے قومی قیادتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور عسکری قیادتوں کے دست و بازو بن کر ملک کے تحفظ و دفاع کے ٹھوس اقدامات طے کریں۔ خدا اس مادر وطن کا محافظ و نگہبان ہو۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024