جمعرات‘ 11 ؍ ربیع الاول 1442ھ‘ 29؍اکتوبر 2020ء
قائمہ کمیٹی میںبچے کی پیدائش پر باپ کو ایک ماہ کی چھٹی سمیت 3 بل منظور
مبارک ہو ان خوش نصیبوں کو جو باپ بننے والے ہیں۔ اب ان تمام سرکاری ملازموں کو جو باپ بنیں گے ، نومولود کی آمد کی خوشی میں ایک ماہ کی چھٹی ملے گی۔ وہ سرکاری ملازم جو باپ بن چکے ہیں وہ بے چارے یہی کہہ سکیں گے۔
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
اگرچہ اس قانون نے خواتین کے حقوق کی بھی پاسداری کی ہے۔ ان کو بھی ماں بننے کی خوشی میں 3 ماہ اطمینان سے آرام کرنے ، بچے کی دیکھ بھال کے لیے رخصت کا حق دیا۔ یہ قانون یورپ میں بھی رائج ہے۔ اب پاکستانی بھی اس کے فیوض و برکات سے خوب فائدہ اٹھائیں گے۔ بچے کی پیدائش ایک خوشگوار لمحہ ہوتا ہے۔ اسے ہم لمحہ مسرت بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس موقع پر ماں باپ دونوں کی مسرت میں یہ چھٹیاں مزید اضافہ کریں گی۔ جن کے بچے بڑے ہو چکے وہ سوچ رہے ہوں گے کہ کاش ہمارے وقت میں بھی ایسا قانون منظور ہوتا تو ہمیں بھی ہر بچے پر ایک ایک ماہ کی چھٹی ملتی۔ اب ایک مسئلہ ضرور حل طلب ہے اگر یہ چھٹی ہر بچہ کی پیدائش پر ملے گی تو پھر اس کا سب سے زیادہ فائدہ ان کو ہو گا جو دھڑا دھڑ بچے پیدا کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ایک دو بچے والوں سے وہ زیادہ فائدے میں رہیں گے جن کے سات سات آٹھ آٹھ بچے ہونگے۔ اب کہیں چھٹیوں کے لالچ میں لوگ زیادہ بچے پیدا نہ کرنے لگ جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو خاندانی منصوبہ بندی کا محکمہ بند کرنا پڑے گا۔
٭٭٭٭٭
بھارتی مسلمانوں میں عمران خان کی مقبولیت میں حیرت انگیز اضافہ
فرانسیسی صدر کے اسلام دشمن رویے کے خلاف عمران خان نے جس دلیری سے مسلمانوں کے جذبات کی نمائندگی کی ہے اس پر بھارتی مسلمانوں کے دلوں میں ان کی عزت بڑھ گئی ہے۔ جس پر بھارتی میڈیا میں بھونچال آیا ہوا ہے۔ کہا جا رہا ہے اگر عمران خان بھارتی مسلمانوں سے ووٹ مانگیں گے تو وہ بخوبی ہنستے کھیلتے عمران خان کو ووٹ دے دیں گے۔ ایسی بات کر کے میڈیا دراصل ہندو اکثریت کو بھڑکا رہا ہے۔ ایک ہندو اخبار نے اسی بل بوتے پر حکمرانوں اور ہندو انتہا پسندوں کو مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ ایسا ہونے سے پہلے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر ایسا جذبہ رکھنے والوں کو کچل دیں۔ یہ کھلم کھلا مسلمانوں کو کچلنے کی دھمکی ہے۔ ہندو انتہا پسندوں کو اور کیا چاہئے وہ تو ایسے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کے دلوں پر ہر وہ پاکستانی حکمران راج کرتا ہے جو پاکستان کی بہتری کیلئے اُمت مسلمہ کے حق کے لیے آواز بلند کرتا ہے۔ اب عمران خان بھی ان کے دل میں جگہ بنا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گستاخانہ عبارت‘ خاکوں اور بیانات کیخلاف انکی پالیسی کو بھارتی مسلمان پسند کرتے ہیں، وہ پہلے ہی کرکٹ کے کھلاڑی کے طور پر پاک و ہندمیں مقبول ترین کھلاڑیوں میں شامل رہے ہیں۔ ان کی تصاویر آج بھی گھروں اور دکانوں پر آویزاں ہیں۔ گویا یہ محبت کوئی نئی نہیں بھارتی مسلمان پہلے بھی عمران خان سے آشنا ہیں ان کو چاہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
سربراہان مملکت کے تحفے نیلام کرنے کا فیصلہ ۔ سرکاری ملازمین خرید سکیں گے
یہ ایک قدیم روایت ہے کہ جب کوئی سربراہ مملکت کسی دوسرے ملک کے دورے پر آتا ہے تو اپنے ساتھ تحائف بھی لاتا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان پرخلوص تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی نشانی ہوتے ہیں۔ پہلے دور میں ہیرے موتی‘ سونا ، چاندی ، ہاتھی ، گھوڑے ، غلام اور کنیزیں اور اپنے علاقے کی مشہور سوغات تحفے میں دی جاتی تھی۔ اب جدید دور میں بھی کوئی قیمتی چیز سربراہان مملکت ایک دوسرے کو پیش کرتے ہیں۔ اب جو سربراہ مملکت پاکستان آتا ہے تو وہ بھی کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور ساتھ لاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے کئی سربراہ مملکت یہ تحفے ذاتی جاگیر سمجھ کر ہڑپ کرتے رہے ہیں۔ مگر اس کے باوجود اس وقت ہمارے سرکاری مال خانہ کہہ لیں یا توشہ خانے میں کروڑوں روپے کی نادر اشیاء تحفوں کی شکل میں محفوظ ہے۔ ان میں زیادہ تر قیمتی گھڑیاں، ہار ، تلواریں ، سونے سے بنی اشیاء اور اسلحہ وغیرہ ہے۔ اب ہمارے قلاش حکمرانوں نے ان کو بیچنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے کاریں فروخت کیں اس رقم سے کونسا قرضہ ادا ہوا ہے پھر بھینسیں فروخت کیں ان سے کونسا خزانہ بھر گیا۔ اب ان تحائف کی فروخت کے نام پر بندربانٹ ہو گی۔ کوڑیوں کے بھائو یہ بھی شوقینوں کے ڈرائنگ روموں میں سجیں گے۔ بہتر ہے ان کا نیلام عام تاکہ عام لوگ بھی کھل کر منہ مانگی قیمت دے کر یہ تحائف خرید سکیں۔ ان تحائف کی بے قدری پر تو غالب یاد آ رہے ہیں جنہوں نے کیا خوب کہا تھا۔
حیف اس چارگرہ کپڑے کی قسمت غالب
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا
٭٭٭٭٭
لاہور میں سموگ بڑھ گیا ، گلے اور سانس کی بیماریوں میں اضافہ
حکومت کی طرف سے تمام تر اعلانات کے باوجود سموگ پر قابو پانے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ ابھی نومبر آنے والا ہے جو ستمگر مہینہ بن جاتا ہے جب سموگ اور دھندمل کر پنجاب اور سندھ میں آفت پھیلاتے ہیںاور لاکھوں لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ کیا شہر کیا دیہات سب ایک پراسرار آسیبی دھندکی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ بچے بوڑھے اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر سڑکوں پر حادثات کی شرح بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ موٹروے پر تو ٹریفک بند کر دی جاتی ہے ، مگر کاروبار حیات تو بند نہیں ہو سکتا۔ دیگر سڑکوں پر یہ دھند کئی جانیںنگل لیتی ہے۔ حکومتی اقدامات کے تحت اینٹوں کے بھٹے بند ہیں۔ گندم کی مڈ جلانے پر پابندی ہے مگر کئی مقامات پر اسکی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ فیکٹریوں ، کارخانوں اور ٹرانسپورٹ سے خارج ہونے والا دھواں اس سموگ اور دھندکے آمیزے کو مزید خطرناک بنا دیتا ہے۔ اس سموگ سے نمٹنے کیلئے حکومت کو عارضی نہیں مستقل بنیادں پر کام کرنا ہو گا تاکہ سموگ کے اس سالانہ حملے سے نجات کی راہ نکل سکے اور انسانی زندگیاں محفوظ ہوں۔ ورنہ یہ درد سر ختم نہیں ہو گا…