کہاں تک سنو گے، کہاں تک سنائوں۔کراچی کے دو پولیس افسروں اغوا ہونے کی کہانی سنائی جارہی ہے۔ہا ہا کار مچ گئی۔مگر بھٹو دور میں آرمی چیف اور ایئر چیف کو اغوا کیا گیاا۔ن سے جبری استعفے لیے گئے ۔ آج تک کسی کی آنکھ شرم سے نہیں جھکی ۔ میںنے شاہی قلعہ کے نوجوانوں کا ذکر کیا توسنیٹر طارق چودھری کا فون آ گیا کہ یہ ادھوری کہانی ہے، ہم لوگوں کو بھٹو کی فورس نے اغو ا کیا تھا بلکہ صحیح معنوںمیںبھٹو نے ہمیںلا پتہ کیا وہ تو بھلا ہو مولانامودودی کا جنہوںنے شور مچایا کہ ان مغوی نوجوانوں کو شاہی قلعہ میں عقوبت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس پر ہم سب کو رات کی تاریکی میں مختلف جیلوں میں بھیج دیا گیا، خود مجھے ساہیوال جیل کی ایک کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا، ہمارے خاندان کو پتہ تک نہ تھا کہ ہم زندہ بھی ہیں یا ہمیں ٹھکانے لگا دیا گیا ہے۔
یہ تو تھی بھٹو دور کے اغوا کی داستان اب سنئے نواز شریف کے شریفانہ دور کے اغوا کی الف لیلیٰ کے قصے۔ ظاہر ہے شریف دور تھا مگر گروہ در گروہ اغوا کی صورت دیکھنے میں آئی ، ایک نہیں دو چار نہیں سینکڑوں لوگوں کو اور وہ بھی ا رکان ا سمبلی کو اغوا کر کے چھانگا مانگا کے جنگلوں میںلے جایا گیا ان کو ہدایت تھی کہ پیچھے کسی سے رابطہ نہیں رکھنا ۔ ظاہر ہے یہ ایک گروہ کا اغوا تھا اور سیاسی اصطلاح میں ہارس ٹریڈنگ کا ایک شرم ناک میلہ لگا۔ بعد میں پھر ایسا ہی کرنا پڑا تو ارکان اسمبلی کے جتھے کو اسلام ا ٓباد کے فائیو اسٹار ہوٹل میں رکھا گیا ا ور پیپلز پارٹی نے اپنے ارکان اسمبلی کواغو اکر کے مالم جبہ کے پر فضامقام پر پہنچا دیا ۔ اغو اتوغوا ہے چاہے کسی کو سوات لے جایا جائے یا کسی کو گلگت کی سیر کرائی جائے۔
نواز شریف نے سیاسی پارٹیاں اغوا کرنے کی بدعت کاا ٓغاز کیا۔ اس کا قصہ کوئی نوا شریف کی اتحادی پیپلز پارٹی کے ترجمان مصطفی نواز کھوکھر سے سنے وہ اپنے والد محترم سے معلوم کر کے بتائیں گے کہ کس طرح لاٹھیوں سے مسلح افراد کے ذریعے فدا محمد خان کو مسلم لیگ کی صدارت سے ہٹایا گیاا ور برادرم حاجی نواز کھوکھر نے اپنے گھر کے سامنے ایک بڑے میدان میں جشن فتح منانے کا انتظام کیا تھا۔
نواز شریف کو مسلم لیگ نے بھی کام نہ دیا تو ایک نئی نوپلی آئی جے آئی کی صدارت سنبھالی اور اعلان کیا کہ اگرچہ وہ پنجاب کے وزیر اعلی ہیں مگر اپوزیشن کے سربراہ کی حیثیت سے متبادل وزیر اعظم بھی ہیں اب ہر کوئی انہیں وزیر اعظم پکارنے لگا۔ اسی آئی جے آئی کے ذریعے انہوںنے اقتدار کی دیوی کو اغوا کر لیا۔
یہ بڑے شریفانہ اغوا تھے۔ مگر جب نواز شرہف کے پاس طاقت آئی تو انہوںنے بھی طاقت دکھانے کا فیصلہ کیا اور پہلا نشانہ نجم سیٹھی اور حسین حقانی بنے، نجم سیٹھی کو اٹھا نے کے لئے بھی چادرا ور چار دیواری کو پامال کیا گیا کیونکہ انہیں بھی بیڈ روم سے ا غوا کیا گیا تھا جہاں ان کی بیگم جگنو محسن لرزہ براندام تھیں کہ اگر گرفتار ہی کرنا ہے تو مارپیٹ اور گالی گلوچ کی ضروت کیا ہے ،۔ اس کے بعد نجم سیٹھی کو کئی ماہ تک جس عقوبت سے گزرنا پڑا شاید وہ آج اس سے انکار کر دیں اب وہ سیاست دان ہیں اور سیاست دان کو حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی بات کی تردید کر دے مگر جب وہ رہائی کے بعد مجھے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میںملے تو میں نے مصافحے کے لئے ہاتھ آگے بڑھا یا ا نہوںنے ہاتھ ملانے سے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ میںنے ان کے اغوا اور ٹارچر پر احتجاجی کالم نہیں لکھا ا س سے پہلے کہ میں اپنی صفائی میں بولتا ان کی شریف النفس بیگم جگنو محسن صاحبہ بولیں ۔ غالب نے ایک نہیں تین کالم لکھے۔
حسین حقانی کے ساتھ کیا ہوا ۔ جو کچھ بھی ہوا ان کی کمر کے نشانات خود بول کر بتائیں گے کہ ان پر کیا کیا ستم ڈھائے گئے۔
حسین حقانی اور نجم سیٹھی کے اغوا اور ان پر تشدد کی داستانیں عالمی میڈیا پر شائع ہوئیں تو حکومت کو محسوس ہوا کہ یہ تو بدنامی مول لے لی ۔ اس لئے طے ہوا کہ پکڑ دھکڑ کئے بغیر مخالف صحافیوں کی مرمت کر دی جایا کرے۔ اس نادر خیال کی پریکٹس کے لیے مجھے چنا گیا۔ میں نے آئی ایس پی آر کے نئے سربراہ میجر جنرل راشد قریشی کو دوپہرر کے کھانے پر ہوٹل میں بلایا ہوا تھا، گاڑی گھر میںاسٹارت کھڑی تھی ۔گیٹ چوپٹ کھلا تھاکہ بیسیوں افراد کچھ وردی میں کچھ سفید لباس میں مجھ پر ٹوٹ پڑے ، لاٹھیاں ،مکے ،گھونسیء اور ٹھڈے ۔ میرے گھر والے سراسیمہ اور پریشان تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ ٹارچر کرنے والوںنے مجھے اٹھایاا ور فٹ بال کی طرح ایک جیپ کے پچھلے حصے میں پھینکا۔ اور کہیں لے جانے لگے تو میرے بچوں نے تعاقب کیا، شہر بھر کے صحافیوں کو خبر دی اور مجھے راستے ہی میں چھڑا لیا گیا مگر جب میں جیپ سے نیچے اترا تو محسوس ہوا کہ ایک ٹانگ تو ساتھ نہیں دے رہی،، جیل روڈ کے ایک آرتھو پیڈک سنٹر پہنچا۔ پتہ چلا کہ گھٹنا ا توڑ دیا گیا ہے۔ اگلے روز قاضی حسین احمد اور نوابزادہ نصراللہ خان کی آل پارٹیز کانفرنس ہوئی توا س میں جو قراردادیں منظور کی گئیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ نواز شریف اس قدر میڈیا کو رگڑا لگانے میںآگے بڑھ گئے ہیں کہ اپنے ہی ایک ساتھی کو کچل ڈالا۔ ڈان میں ضیاء الدین صاحب نے سارا کچا چھٹہ کھول دیا کہ میرے ساتھ جو کچھ ہوا وہ گوال منڈی کے انتقام کا نیا چہرہ تھا گر ضیا الدین نے یہ ضرور لکھا کہ اس نئے انتقام کا نشانہ ایک غلط صحافی کو بنایا گیا کیونکہ وہ تو ان کاا پنا آدمی تھا۔ یہ تھاا پنے آدمی سے سلوک۔
نواز شریف نے آخری اغوا کا نشانہ اپنے ا ٓرمی چیف کو بنایا ۔اغو کی یہ کوشش انہیں مہنگی پڑی۔ کیونکہ آرمی چیف حسین حقانی، نجم سیٹھی ا ور اسداللہ غالب کی طرح کمزور اور بے مایہ نہیں ہوتا۔
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024