فروری 2020 سے دنیا بھر میں پھیلی موزی اور جان لیوا وائرس COVID-19 کی دوسری لہر انگلستان‘ امریکہ‘ برازیل‘ بھارت‘ آسٹریا اور بیلجیئم سمیت 16 یورپی ممالک کو اب دوبارہ شدت سے اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے جبکہ پاکستان میں اس دوسری لہر کو روکنے کیلئے فوری اقدامات اور احتیاطی تدابیر پر اگرسنجیدگی سے عمل نہ کیا گیا تو کرونا کے واقعات اور اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ انہی سطور میں متعدد بار پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اس جان لیوا مرض پر اس وقت تک قابو پانا ممکن نہیں جب تک اسکی ’’بونافائیڈ‘‘ ویکسین تیار نہیں کر لی جاتی۔ یہ بھی عرض کر چکا ہوں کہ کسی بھی نئی ویکسین کی تیاری کیلئے 2 سے 5 برس کا عرصہ درکار ہے۔ اس عرصہ میں تحقیقاتی عمل یا دوران تجربہ کسی بھی رکاوٹ پر عرصہ کا دورانیہ تبدیل بھی ہو سکتا ہے۔ اب یہ کہنا کہ امریکہ‘ روس یا پاکستان میں جنگلی جڑی بوٹیوں سے یا سنیاسیوں نے سوکھے پتوں سے کوئی دوائی تیار کر لی ہے تو یہ محض اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
برطانیہ کی تازہ ترین صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تو جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں 44 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر بھی اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ انگلستان سمیت ویلز‘ سکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ میں کرونا کی دوسری لہرمیں شدت سے اضافہ چونکہ جاری ہے اس لئے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے COVID-19 کی پھیلتی اس لہر کو 3 درجوں میں تقسیم کرتے ہوئے فوری نافذالعمل کرنے کے اچکامات جاری کر دیئے ہیں۔ 3 درجوں کو Tire One, Two and Three کا نام دیا گیا ہے۔ ’’ٹیر تھری‘‘ سب سے زیادہ متاثرہ ’’ٹائر ٹو‘‘ ہائی الرٹ اور ’’ٹائر ون‘‘ کاروبار کے مخصوص اوقات اور رات 10 بجے کے بعد کرفیو کا نفاذ شامل ہو گا۔ تیسرے درجے میں شامل شہریوں کو پارکوں‘ ساحل سمندر‘ عوامی باغات اور کھیل کے میدانوں میں آنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
لندن کے شہریوں کیلئے جاری کئے گئے سخت احکامات میں اپنے گھر میں اپنے کسی دوست‘ عزیز‘ رشتہ دار یا مہمان کو بلانا ممنوع ہو گا۔ کسی دوست یا رشتہ دار کو ملنا اگر ضروری ہو تواپنے گھر سے باہر صرف 6 افراد فیس ماسک‘ گلوز اور طے شدہ 2 میٹر سماجی فاصلے کے تحت ملاقات کر سکیں گے۔ پارکوں یا کسی بھی تفریحی مقام پر کھلے عام بوس و کنار یا محبت کو متحرک رکھنے کا کوئی بھی عمل ممنوع تصور ہو گا۔ رات 10 بجے کے بعد کاروبار بند کرنا ہوں گے۔ اسی طرح سکاٹ لینڈ اور ویلز میں بھی لاک ڈائون کا اعلان کر دیا گیا ہے جبکہ آئر لینڈ دوبارہ لاک ڈائون میں جانے والا پہلا یورپی ملک بن گیا ہے۔ ’’وہ لندن‘‘ جہاں صبح و شام اور رات کی رنگینیاں زوروں پر ہوتی تھیں جہاں آہستہ آہستہ رونقیں بحال ہو رہی تھیں کرونا کی اس دوسری لہر نے ایک بار یہ رعنائیاں اور حسین ملاقاتیں چھین لی ہیں۔ سوشل ملاقاتوں پر لگی محدود پابندیوں سے برطانوی پاکستان بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
’’گریٹر لندن‘‘ میں بڑھتے COVID-19 کیسز کی ایک بڑی وجہ شہریوں کا احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنا بھی ہے۔ ٹیوب ٹرینوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں دوران سفر اور خریداری کے وقت ماسک اور Self DIstancing کی حکومتی ہدایات کو بری طرح نظرانداز کیا گیا ہے اسی طرح سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں خدمات سرانجام دینے والے اہلکار بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ برطانوی پاکستانیوں کی مجموعی طور پر اگر بات کی جائے تو احتیاطی تدابیر میں تساہل کی ریشو زیادہ سامنے آئی ہے۔ اس لئے لندن میں پاکستانی اداروں کو زیادہ محتاط رہنا ہو گا۔
برطانیہ میں نئے پاکستانی ہائی کمشنر معظم احمد خان صاحب کی گزشتہ ماہ گو تعیناتی ہو گئی تھی مگر COVID-19 کی شدت سے بڑھتی دوسری لہر کے Alert level کے پیش نظر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے برطانوی پاکستانیوں مقامی صحافیوں اور کالم نگاروں سے وہ One to One ملاقات نہ کر پائے چنانچہ ہائی کمشن کے شعبۂ اطلاعات نے اگلے روز ایک مربوط پالیسی ترتیب دیتے ہوئے پاکستانی کونسلروں‘ بزنس کمیونٹی نمائندوں اور ذرائع ابلاغ کے مقامی نمائندوں کو ایس او پیز کے تحت ہائی کمشنر سے ملاقات کروانے کا اہتمام کیا۔
پرنٹ میڈیا کے 4 رکنی وفد میں راقم سمیت اعجاز احمد‘ ڈان کی رپورٹر اور اے پی پی کے نمائندہ کریم مدد بھی شامل تھے۔ ہائی کمشن کے فرسٹ سیکرٹری برائے اطلاعات منیر احمد کی موجودگی میں ہائی کمشنر معظم احمد خان سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ معظم احمد خان صاحب کا شمار خارجی امور کے ماہرین میں ہوتا ہے کینیا‘ واشنگٹن‘ نیو دہلی میں مختلف عہدوں پر جن میں انچارج ایڈمن‘ سپیشل سیکرٹری فارن آفس‘ منسٹر آف پالیٹکس‘ ترجمان فارن آفس سمیت متحدہ عرب امارات اور نیدر لینڈ (ہالینڈ) میں بطور ہائی کمشنر ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔
برطانیہ میں اپنی تعیناتی کے حوالہ سے ان کا کہنا تھا کہ پاک برطانیہ دو طرفہ دوستانہ تعلقات کے استحکام تعلیم‘ سرمایہ کاری‘ دفاع‘ ٹریڈ اور Leverage کو مضبوط بنانا میری ترجیحات میں شامل ہے۔ اپنے ہم وطنوں کے سفارتخانہ کے مختلف شعبوں کے حوالہ سے مسائل کا فوری حل میری پہلی ترجیح ہو گا مگر اس سلسلہ میں مجھے آپ کی تجاویز اور تعاون درکار رہے گا۔ میری یہ بھی بھرپور کوشش ہو گی کہ ہر برطانوی پاکستانی کو حقیقی معنوں میں ’’غیر سرکاری سفیر‘‘ کا مقام دیا جائے۔ اس بارے میں تمام قونصل خانوں کو بھی ہدایات جاری کی جا رہی ہیں۔ کشمیریوں پر بھارتی جاوحیت اور وحشیانہ تشدد پر انہوں نے کہا کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال انتہائی کشیدہ ہوچکی ہے مہذب دنیا کا یہ فرض ہے کہ وہ اس مسئلے کے فوری اور پائیدار حل کیلئے آواز بلند کریں۔ تنازعہ کشمیر کا واحد حل اقوام متحدہ کی قرارداد میں پنہاں ہے اس لئے اب وہ وقت آ گیا ہے کہ کشمیریوں کو ان کی آزادی کا حق دیا جائے۔ ہائی کمشنر نے کہاکہ لندن میں تمام تر احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے اس بار بھی Kashmir Black Day پورے جذبہ سے منایا جائیگا۔ قومی ائیرلائن PIA پر لگی پابندی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ہائی کمشنر معظم احمد خان نے کہا کہ اس پر پوری قوم کو دکھ ہے متعلقہ ممالک سے مذاکرات جاری ہیں انشاء اللہ PIA جلد اپنا مقام حاصل کر لے گی ہم سب کا یہ فرض ہے کہ اپنی قومی ائیر لائن کی سپورٹ جاری رکھیں۔ PIA کے موجودہ CEO کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں وہ ایک نیک اور فرض شناس آفیسر ہیں نئے طیاروں نے جو جدید سہولتوں سے مزین ہیں PIA کے اشتراک سے ہیتھرو‘ مانچسٹر سے پروازیں شروع کر رہے ہیں جن میں حلال کھانا دستیاب ہو گا۔
روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ غیر ممالک میں مقیم 9 ملین پاکستانیوں کے مالی استحکام کیلئے موجودہ حکومت کا یہ ایک تاریخی اقدام ہے۔ یہ اکائونٹ آپ گھر بیٹھے روپوں یا ڈالرز میں online کھول سکیں گے جو سٹیٹ بنک آف پاکستان کی زیر نگرانی انتہائی محفوظ ہے۔ پاکستانیوں کے نام اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ ہر پاکستانی کیلئے سفارت خانے کے دروازے کھلے ہیں۔ تاہم کووڈ کی احتیاطی تدابیر کو ہرگز نظرانداز نہ کیا جائے۔
گاڑیاں بنانے والے پاکستانی اداروں میں قیمتیں گھٹانے کی دوڑ
Mar 16, 2024 | 13:40