امریکی وزیر خارجہ نے ایک بار پھر پاکستان کے خلاف پرانے الزامات کا اعادہ کیا ہے کہ اس کی سرحدوں کے اندر حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دے ڈالی ہے کہ اگر انہیں ختم نہ کیا گیا تو پاکستان اپنے انجام سے نہیں بچ سکتا۔ یہ الزام دہرانے سے قبل اگر امریکہ اپنے گریبان میں جھانک لیتا تو اس پر یہ راز کھل سکتا تھا کہ حقانی نیٹ ور ک کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان کے اندر نہیں بلکہ افغانستان کے اندر ہیں جہاں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج پچھلے چودہ برسوں سے مورچہ زن ہیں مگر دنیا کی یہ بہت بڑی اور ہیبت ناک جنگی مشینری افغانستان کو زیر نہیں کر سکی اور اس کاکنٹرول صرف چند بڑے شہروں کی چھاﺅنیوں تک محدود ہے۔ باقی سارا افغانستان یا تو حقانی نیٹ ورک کے پاس ہے یا افغان طالبان کے دوسرے گروپوں کے ہاتھ میں ہے۔ در اصل امریکہ کو یہ عادت پڑ گئی ہے کہ جب کبھی اسے افغانستان میں کوئی نئی مشکل پیش آتی ہے جیسا کہ قندھار کاحالیہ سانحہ تو وہ اپنی کمزوری اور کوتاہی کو چھپانے کے لئے پاکستان پر برسنے لگ جاتا ہے۔امریکہ اورساری دنیا جانتی ہے کہ نائن الیون کے حوادث میں کوئی افغان شہری ملوث نہیں تھا۔ نہ کسی پاکستانی شہری کا اس سانحے سے دور دور کا تعلق تھا بلکہ کوئی عراقی باشندہ بھی ان حملہ آوروں کی فہرست میں نہ تھا مگر امریکہ نے پچھلے چودہ برسوں میں عراق کی جی بھر کے پٹائی کی، افغانستان کو تو بہت بڑی چھاﺅنی میں تبدیل کر لیا اور یہاں بیٹھ کر لگا پاکستان کو نشانہ بنانے۔ کبھی ڈرون حملے۔ کبھی سلالہ، کبھی ایبٹ آباد۔امریکہ نے پاکستان کے بازو مروڑ کر اسے ان افغان مہاجرین کے خلاف فوجی آپریشن پر مجبور کیا جو برسہا برس سے پاکستان میںمقیم تھے۔ امریکہ ان افغان مہاجرین کو جہادی تسلیم کرتا تھا اور سوویت روس کو پارہ پارہ کرنے میں ان کے کردار کا اس قدر معترف تھا کہ امریکی صدر نے وائٹ ہاﺅس میں افغان جہادی لیڈروں کو ضیافت پر مدعو کیا مگر نائن الیون کا ہوا کھڑا کر کے وہ ان افغان جہادی گروپوں کا بھی دشمن بن گیا اور پاکستان کو بھی ان کے خلاف لڑنے پر مجبور کر دیا۔ مرتا کیا نہ کرتا، پاکستان نے ایک نہیں درجنوں فوجی آپریشن کئے۔کبھی راہ نجات کبھی ضرب عضب اور اب ردالفساد۔ پاکستان ننے نام نہاد دہشت گردوں کا قلع قمع کر دیا جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ اب پاکستان میں کبھی کوئی خود کش واردات ہوتی ہے اور باقی دنیا تو مکمل امن چین کی نیند سوتی ہے وہ جو کہتے ہیں کہ جو مزاج یار میں آئے امریکہ کبھی تو پاکستان کی وار آن ٹیرر کے خلاف کامیابیوں کا قصیدہ پڑھتا ہے اور کبھی اسے مطعون کرنا شروع کر دیتا ہے کہ فلاںکو تو مارا لیکن فلاں کو نہیں مارا۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمار املکی میڈیا اور سیاسی طبقہ بھی امریکہ کی پڑھائی ہوئی پٹی کو دہراتا ہے اور ہمارے ہاں گڈ اور بیڈ طالبان کی اصطلاح پر روز بحث چھڑتی ہے۔ اس بحث میں ہمارے لوگ امریکی الزامات کودہرائے چلے جاتے ہیں جو کہ انتہائی باعث شرم رویہ ہے یہ عادت بد صرف پاکستانی میڈیا اور بعض سیاسی طبقات کو لاحق ہے کہ وہ اپنے ہی ملک کی خارجہ اور دفاعی حکمت عملی کو رگیدتے ہیں ورنہ ہمارے پڑوس میں بھارت ہو یا یورپ اور امریکہ کے عوام اور ان کا میڈیا ہو وہ اپنی حکومتی پالیسیوں کے خلاف اظہار خیال نہیں کرتا اور نہ انہیں جھٹلانے کی کوشش کرتا ہے۔ امریکہ ہر چند منٹ بعد دنیا میں کہیںنہ کہیں ایک ہلاکت خیز بم گرا رہا ہے مگر امریکی عوام کی مجال نہیں کہ وہ اپنی افواج یا حکومتی پالیسی کے خلاف زبان بھی کھولیں۔ ہمارے ہاں اظہار رائے کی ا ٓزادی کا ناجائز استعمال کثرت سے ہورہا ہے جس کی وجہ سے امرکی حکام کو بھی موقع مل جاتا ہے کہ و ہ موقع بے موقع پاکستان کو لتاڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ جہاں تک اس دھمکی کا تعلق ہے کہ پاکستان اپنے انجام سے نہیں بچ سکتا تو ایک لاکھ بے گناہوں کی شہادت کے بعد بھی امریکہ کا جی نہیں بھرا تو وہ اپنا شوق پورا کرنے کے لئے آزاد ہے مگر اسے اچھی طرح علم ہے کہ پاکستان نہ تو عراق ہے اور نہ افغانستان ، یہ ملک ایک ایٹمی طاقت ہے جس نے اس اسلحے کے نہ ہوتے ہوئے بھارت کی تین گنا افواج کے مقابل اپنا دفاع کیاا ورا س کامیابی سے کیا کہ بھارتی افواج کے چھکے چھڑا دیئے۔ اڑتالیس۔ پینسٹھ۔ اکہتر میں یہ بھارت ہی تھا جو جنگ بندی کی بھیک مانگنے کے لئے سلامتی کونسل جا پہنچا تھا اور جب سے پاکستان نے بھارت کے مقابلے مں ایٹمی دھماکے کئے ہیں تو بھارت کو جرات نہیں ہو سکی کہ وہ پاکستان کی جغرافیائی حدود کے اندر قدم بھی رکھے۔ کہنے کو بھارت بھی کہتا ہے کہ وہ سرجیکل اسٹرائیک کرے گا مگر اسے ایسی جرات نہیں ہو پاتی۔ اب امریکہ بھی یہی دھمکیاں دے رہا ہے تو اسے بھی اچھی طرح علم ہے کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے سکتا ہے مگر پاکستان ایک پر امن اور مہذب ملک ہے۔ ا سکی خواہش ہے کہ اسے امن سے رہنے دیا جائے اور دوسرے بھی امن چین سے رہیں۔میں یہاں اپنے ملک کے وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی کے انٹرویو کا حوالہ دینا چاہوں گا جن سے امریکی وزیر خارجہ کی حالیہ دھمکی اور الزام کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ دو بار امریکی ہم منصب سے مل چکے ہیں، ایک بار جب وہ مختصر دورے پر پاکستان آئے اوردوسری مرتبہ جب جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے نیو یارک گیا تو انہوں نے واشنگٹن میں مدعو کیا اور دونوں ملاقاتوں میں ان کا رویہ انتہائی خوشگوار تھا اور انہوں نے کوئی الزام تراشی کی نہ کوئی دھمکی دی مگر اب یکا یک ان کا نیا میڈیا بیان سا منے آ گیا ہے اورا س پر حیرانی بھی ہوئی ہے کہ خودا نہوں نے پاکستان سے براہ راست اس لب ولہجے میں بات نہیںکی۔ بہر حال ان کے بیان کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور انہیں یہی سمجھانے کی کوشش کی جائے گی کہ پاکستان اپنے حصے کا فریضہ انجام دے چکا، اب امریکہ کی ڈومور کی باری ہے اور وہ افغانستان میں امن قائم کروائے۔ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ امریکی اور اتحادی افواج کے ہوتے ہوئے افغانستان میں عام انتخابات کا انعقاد مشکل ہو گیا ہے اور اب اگر یہ کوشش کی گئی ہے تو قندھار جیسا سانحہ پیش آ گیا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر امریکہ کو گھر کی خبر لینی چاہئے اور جہاں ا سکی فوجیںمورچہ بند ہیں، وہاں امن قائم کرنا س کا اپنا فرض بنتا ہے ۔ اب پاکستان تو افغان جنگ اپنی سرزمین پر بیٹھ کر نہیں لڑ سکتا۔ یہ بات امریکیوں پر بار بار واضح کی جاچکی ہے۔ویسے کیا ہی بہتر ہو کہ امریکی اور اتحادی افواج ا س ملک کا قبضہ چھوڑ دیں جو ان کا نہیں ہے تاکہ افغانستان کے عوام اپنے لئے خود کوئی راستہ تلاش کر سکیں۔
٭٭٭٭٭
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024