خواتین اور ہمارا معاشرہ

معاشرے کی ابتدا اس ہی وقت ہوگئی تھی جب حضرت آدم ؑ ظہور پذیر ہوئے اور انہی کی پسلی سے انسانیت کی والدہ حضرت اماں حوا ؑجلوہ فرما ہوئیں ۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سماجی فلاح و بہبود ، معاشرتی نظم و ضبط ، معاشی استحکام ، سیاسی سرگرمیوں اور دیگر شعبوں میں خواتین کے کردار کی اہمیت پر زور دیتے ہیں ۔ خواتین کی اہمیت سے انکار تو کوئی معاشرہ بھی نہیں کر سکتا ۔
ایک عور ت ماں، بیوی، بہن، بیٹی ہر روپ اور ہر رشتے میں عزت ، وقار اور وفاداری کا پیکر ہے ۔خواتین کا احترام دراصل نوع ِ انسانی کے احترام کے مترادف ہے۔ اسلام نے جدید ترقی یافتہ نظام کی بنیاد رکھی۔ جہاں حقوق کو غصب کرنا ، ظلم و جبر ، طاقت کے بے جا استعمال کو ممنوع قرار دیا گیا۔ بیٹیوں کی ولادت کو باعثِ شرم سمجھنا جیسے دیگر اطوار کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ انسان تو انسان بلکہ ہر جاندار کے حقوق کا احترام سکھایا ہے۔ عورت کو ایسا باعزت مقام عطا کیا ہے جو رہتی دنیا تک مشعل ِ راہ ہے لیکن بد قسمتی دیکھئے کہ آزادی اور ترقی کے باوجود عورت پر تشدد ابھی تک ختم نہیں ہو سکا۔ جسمانی تشدد کے علاوہ خواتین کو جارحانہ برتائوکا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جو انہیں نفسیاتی طور پر بھی تباہ کر دیتا ہے۔ خواتین پر ظلم و جبرکے خاتمہ اور انکے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ناصرف ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے بلکہ عملی اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں لیکن یہ مرض ہے کہ تھمنے کو ہی نہیں آرہا۔ دراصل خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک معاشرے میں پایا جانے والا ایک عام رویہ ہے اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے حکومتی اقدامات کے علاوہ ہمیں بھی اپنے روئیے کی اصلاح کرنا ہوگی۔ خواتین کے معاشی، قانونی اور معاشرتی حقوق کی نگرانی کرنی کرنا ہوگی۔ خواتین کی بے حُرمتی ، اغوا برائے تاوان ، اجتماعی زیادتی، جنسی تشدد اور بچے چھین کر گھروں سے نکال دینے کے سینکڑوں واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جن میں حکومت ِ پنجاب کے ذمہ دارانہ اقدامات کے ذریعہ سال بہ سال نمایاں کمی واقع ہو رہی ہے۔ صوبہ پنجاب میں خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے وومن پروٹیکشن بل 2006 ، ہراساں تحفظ ایکٹ اور پاکستان پینل کوڈ 186 کا ترمیمی بل کوڈ آف کرمنل پروسیجر 1898 پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ عورت صدیوں سے اپنے تشخص کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ اسلام نے عورت کو ایسا باعزت مقام عطا کیا ہے کہ ہر مذہب اس کا معترف ہے۔ ماں کے پیروں کو جنت سے افضل قرار دیا گیا۔ ایک ماں اپنا بچہ تھامے کھیتوں ، کانوں ، گھروں اور کارخانوں میں کام کرتی ، بھٹے پہ تپتی ہوئی اینٹیں اٹھاتی ، ٹریفک سگنل اور سڑک کے کنارے چھوٹی چھوٹی چیزیں بیچتی نظر آتی ہے جہاں اسے زیادتی، ظلم و جبر اور تضحیک کا سامنا رہتا ہے۔ دیہی ہو یا شہری ، پڑھی لکھی ہو یا ان پڑھ ، ہائوس وائف ہو یا ورکنگ ویمن اسی ظالمانہ روئیے کا شکار ہے۔ دیہی علاقوں میں وٹہ سٹہ ، قرآن سے شادی ، غیرت کے نام پر قتل کاروکاری اور ونی جیسی فرسودہ رسومات آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں ۔ یہی نہیں دیہی اور شہری علاقوں میں خواتین پر گھریلو تشدد، چہرے پر تیزاب پھینکنے اور خود سوزی جیسے واقعات بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں ۔ایسی تمام صورتحال سے نمٹنے کیلئے قانون نافذ کرنیوالے ادارے بروقت اور بلا تفریق کارروائی کے ذریعہ مجرمان کو کیفر ِ کردار تک پہنچانے میں ہر ممکن اقدامات کرتے ہیں۔
پارلیمان میں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کی روک تھام کیلئے کاروکاری کا بل بھی منظور کرایا گیا ہے ، جس سے خواتین کے ساتھ بدسلوکی ، زیر ِحراست تشدد ، ماورائے عدالت قتل میں غیر معمولی کمی دیکھنے میں آئی ہے اور معاشرتی ترقی میں خواتین کی شمولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ۔ علاوہ ازیں 1994 میں اقوام ِ متحدہ کے کنونشن میں بھی اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ عورتوں کے خلاف تعصب کا خاتمہ کیا جائیگا۔ علم حاصل کرنا ہر مسلمان عورت اور مرد پر فرض ہے ، جبکہ وطن ِ عزیز کے تعلیمی اداروں میں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں خاصی کم ہے جس کیلئے معاشرے میں شعور اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ حکومت ِ پنجاب میں صوبہ بھر میں طالبات کیلئے الگ تعلیمی ادارے قائم کئے ہیں جن میں بلا امتیاز ہر طالبہ کیلئے تعلیم کے یکساں مواقع موجود ہیں۔ حکومت ِ پنجاب علم کی قدر و قیمت اجاگر کرنے کیلئے گاہے بگاہے لوکل و مین سٹریم میڈیا کے ذریعے اطلاعاتی مہم کا سہارا بھی لیتی ہے جو کہ تعلیم کے فروغ میں مثبت اثرات مرتب کر رہی ہے ۔ہمارے معاشرے میں خواتین کا دفاتر ، کارخانوں ، فیکٹریوں اور ایسے دیگر مراکز پر کام کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے جس کی ایک وجہ تو ہماری معاشرتی روایات اور اقدار ہیں لیکن دوسری بڑی وجہ خواتین کو ایسے اداروں میں ہراساں کرنا ہے۔ اس ضمن میں بھی حکومت ِ پنجاب نے تمام اداروں میں انسان دوست ماحول کو یقینی بنانے کیلئے سخت قوانین متعارف کرانے کیساتھ ساتھ چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی متعارف کروایا ہے ۔جبکہ خواتین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کر کے مردوں کے برابر لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ تقریباً ایک دہائی پہلے تک خواتین کا سیاسی اور انتظامی امور میں عمل دخل معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن اب تمام شعبہ ہائے زندگی میں خواتین اپنا آپ منوا رہی ہیں ۔ خواتین کو ووٹ ڈالنے کا بھی پورا حق حاصل ہے۔انتخابات میں کوٹہ سسٹم بھی موجود ہونے کے باوجود خواتین جنرل نشستوں سے منتخب ہوکر بھی قانون ساز اداروں کا حصہ بن رہی ہیں۔ فوج ، رینجرز، پولیس اور ایسے دیگرقانون نافذ کرنیوالے اداروں میں بھی خواتین احسن طریقے سے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ موٹر وے اور ٹریفک پولیس میں بھی خواتین سرگرم ِ عمل ہیں ۔صوبہ پنجاب میں خاتون صوبائی محتسب کو بھی متعارف کرایا گیا ہے ۔ اسکے علاوہ خواتین وکالت، میڈیکل ، صحافت ، تدریس جیسے باعزت شعبوں سے بھی وابستہ ہو کر بھرپور خدمات انجام دے رہی ہیں جو کہ معاشرے میں تبدیلی اور تغیر کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ صوبہ پنجاب میں خواتین کا جائیداد میں حصہ یا لین دین کے معاملات کیلئے بھی سخت قوانین موجود ہیں ۔ حکومت ِ پنجاب کے اقدامات کی روشنی میں یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ دن دور نہیں کہ جب وطن ِ عزیز سے خواتین کا استحصال ، امتیازی سلوک اور ظلم و جبر کا مکمل طور پر خاتمہ ہو جائیگا۔