وزیراعلیٰ بلوچستان کا صوبے میں حکومتی رٹ قائم نہ ہونے اور لاپتہ افراد کی بازیابی میں ناکامی کا اعتراف....کیا قوم حکومتی سطح پر ایسی بے نیازی کی متحمل ہو سکتی ہے؟
وزیراعلیٰ بلوچستان کا صوبے میں حکومتی رٹ قائم نہ ہونے اور لاپتہ افراد کی بازیابی میں ناکامی کا اعتراف....کیا قوم حکومتی سطح پر ایسی بے نیازی کی متحمل ہو سکتی ہے؟
وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی میں ناکامی کا اعتراف کرتا ہوں۔ بلوچستان کے بعض علاقوں میں حکومتی رٹ نہیں‘ مکران سمیت کئی علاقوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ گزشتہ روز کراچی پریس کلب کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل پر دسمبر میں کل جماعتی کانفرنس بلائی جائیگی جس میں صوبے میں فرقہ واریت اور شورش پر قابو پانے کیلئے حکمت عملی طے کی جائیگی۔ انکے بقول اس وقت بلوچستان کے تعلیمی ادارے تباہ ہوچکے ہیں‘ اگر صوبے کے مسائل حل کرنے میں پیش رفت نہ کر سکا تو عوام کو آگاہ کروں گا اور منافقت نہیں کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد سے متعلق اپنی ناکامی کا اعتراف کرتا ہوں مگر یہ تاثر غلط ہے کہ جو بلوچستان جائیگا‘ مر جائیگا۔ انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ میں ایف سی کی 50 فیصد چیک پوسٹیں ختم کر دی ہیں۔ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال پہلے سے کافی بہتر ہوئی ہے۔ براہمداغ بگتی سے ملاقات نہیں ہوئی‘ خواہش ہے کہ ملاقات جلد ہو جائے۔ ہمیں بلوچستان کے مسائل کو آئین میں رہ کر حل کرنا ہو گا۔ انکے بقول لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کئے بغیر صوبے میں قیام امن کیلئے بات چیت ممکن نہیں۔
بلوچستان میں امن و امان کا مسئلہ سابق جرنیلی آمر مشرف کے دور حکومت میں شروع ہوا تھا جب بندوق کے ذریعہ ہر مسئلہ کا حل نکالنے کی پالیسی اختیار کی گئی۔ اسی زعم میں حکومت کی جانب سے فوجی اپریشن شروع کیا گیا تو بلوچ قوم پرستوں نے اسکی مزاحمت کی اور ایجنسیوں کے کردار پر بھی اپنے تحفظات کا کھلم کھلا اظہار شروع کر دیا۔اس سے نہ صرف بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی بلکہ وفاق کے ساتھ بداعتمادی میں بھی اضافہ ہوا اور اسی تناظر میں بڑا صوبہ ہونے کے ناطے پنجاب بھی بلوچ قوم پرستوں کی منافرت کی لپیٹ میں آیا۔ بلوچستان کے بزرگ قوم پرست لیڈر نواب اکبر بگتی فوجی اپریشن کے دوران جاں بحق ہوئے تو بالخصوص بلوچ قوم پرستوں کی نوجوان نسل میں زیادہ اشتعال پیدا ہوا جس نے مزاحمت کی تحریک شروع کی تو بیرون ملک سے پاکستان دشمن قوتوں کو حکومت کے پیدا کردہ ان حالات سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا جنہوں نے ناراض بلوچ نوجوانوں کو ورغلا کر اور انکی مالی اور حربی معاونت کرکے انکی مزاحمت کی تحریک کو بلوچستان کی آزادی کی تحریک میں تبدیل کر دیا۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت تو بلاشبہ ایسے مواقع کے انتظار میں رہتا ہے مگر یہ ہماری حکومتی اور سیاسی قیادتوں کی بھی ذمہ داری تھی کہ وہ ناراض بلوچ نوجوانوں کے مطالبات مان کر انکے جذبات ٹھنڈے کرتے اور بلوچ عوام کیخلاف ایف سی اور دوسری سکیورٹی ایجنسیوں کے ماورائے قانون اقدامات کا اعادہ نہ ہونے دیتے مگر جرنیلی آمریت تو کجا‘ منتخب حکمرانوں نے بھی مشرف آمریت کے پیدا کردہ مسائل کو حل کرنے میں کوئی عملی پیش رفت نہ کی۔ سابق صدر آصف زرداری نے جو خود بھی بلوچ ہونے کے داعی ہیں‘ ماضی کی غلطیوں پر بلوچ قوم پرستوں سے معافی ضرور مانگی مگر انہیں سیاست کے قومی دھارے میں لانے کیلئے کوئی ٹھوس حکمت عملی طے نہ کی جبکہ انکی پارٹی کے وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے تو بلوچستان کے معاملات میں اپنی بے نیازی کی انتہاءکر دی‘ نتیجتاً بلوچستان کی صورتحال گھمبیر تر ہوتی گئی اور پنجابی آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ سمیت بلوچستان میں فرقہ ورانہ اور دوسری دہشت گردی انتہاءکو جا پہنچی‘ اس سے ڈاکٹر بھی نہ بچے!
بلوچستان میں شک کی بنیاد پر لوگوں کو حراست میں لے کر لاپتہ کرنے کا سلسلہ مشرف آمریت کے دوران ہی شروع ہوا تھا جو بلوچ عوام میں منافرت کی فضا کو بڑھانے کا باعث بنا جبکہ بلوچ قوم پرست لیڈران نے سکیورٹی ایجنسیوں پر ان واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کئے جس کے انکے پاس شواہد بھی موجود تھے۔ اسکے ردعمل میں نوجوان بلوچ قوم پرستوں نے بلوچستان میں گھیراﺅ جلاﺅ کا سلسلہ شروع کیا تو پاکستان دشمن قوتوں کو بھی انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا موقع مل گیا جبکہ اس شورش کو روکنے کیلئے ایجنسیوں نے جس بے تدبیری کا مظاہرہ کیا‘ اس سے حالات مزید خراب ہوئے چنانچہ پاکستان مخالف ایجنڈہ رکھنے والوں کو بلوچستان کے حالات کی خرابی کے حوالے سے ایجنسیوں پر ملبہ ڈالنے کا موقع بھی مل گیا۔ سپریم کورٹ سابقہ منتخب حکومت کے دورسے ہی بلوچستان کے لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کر رہی ہے جس کے دوران بھی قانون نافذ کرنیوالی ایجنسیاں الزامات کی زد میں آئیں جبکہ ایف سی کے سربراہ کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں پیش کی گئی رپورٹ میں لاپتہ افراد سے متعلق جو حقائق بیان کئے گئے‘ ان میں ایجنسیوں کو بری الذمہ قرار دے کر بلوچستان کے قوم پرست سیاست دانوں پر ملبہ ڈالنے کی کوشش کی گئی اور مو¿قف اختیار کیا گیا کہ الزام کردہ بیشتر لاپتہ افراد فراری کیمپوں میں موجود ہیں جو بیرونی فنڈنگ سے پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور زیادہ تر یہی عناصر ٹارگٹ کلنگ میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔ اسکے برعکس بلوچ قوم پرست لیڈران سکیورٹی ایجنسیوں کے ماورائے قانون اختیارات کو آج بھی چیلنج کر رہے ہیں جبکہ اسی تناظر میں سابقہ پورے دور حکومت میں بلوچستان آتش فشاں بنا رہا۔ آئے روز فرقہ ورانہ دہشت گردی میں سینکڑوں کی تعداد میں شیعہ کمیونٹی کے قتل عام کا سلسلہ جاری رہا اور بلوچستان کے مختلف محکموں میں تعینات پنجابی آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ نے فضا مزید مکدر بنادی مگر اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان کے کانوں پر جوں تک رینگی‘ نہ اس دہشت گردی کو روکنے کیلئے ایجنسیوں کا کوئی موثر کردار نظر آیا۔ اسی فضا میںوفاقی حکومت کو وزیراعلیٰ رئیسانی کو معطل کرکے گھر بھجوانا پڑا مگر گورنر راج کے دوران بھی خلفشار پر قابو نہ پایا جا سکا۔ بلوچستان کی بدامنی کے ایسے ہی حالات موجودہ حکمرانوں کو بھی ورثے میں ملے ہیں اور اسی تناظر میں وزیراعظم میاں نوازشریف نے بلوچستان میں اپنی پارٹی کی حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود بلوچ قوم پرست لیڈروں کے اتفاق رائے سے وزیراعلیٰ کیلئے ڈاکٹر عبدالمالک اور گورنر کیلئے محمود اچکزئی کے بھائی محمد خان اچکزئی کو نامزد کیا۔ بلوچستان کے حالات پر قابو پانے کیلئے وزیراعظم کا جذبہ اور سوچ اپنی جگہ درست ہے مگر انہوں نے بلوچ قوم پرست لیڈران سے امن و امان کی بحالی کے سلسلہ جو توقعات وابستہ کی تھیں‘ وہ نہ صرف پوری نہیں ہو پا رہیں بلکہ گورنر اور وزیراعلیٰ بلوچستان خود بھی ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے علیحدگی پسند عناصر کی سوچ کو تقویت پہنچاتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ ماہ گورنر بلوچستان نے پاکستان کے پرچم جلانے اور قائداعظم کی ریذیڈنسی کو دہشت گردی کے ذریعہ تباہ کرنیوالے عناصر کے حق میں یہ فتویٰ صادر کیا کہ وہ اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اب وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بھی غالباً انہی بلوچ قوم پرستوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے براہمداغ بگتی کی ملک دشمن سازشوں اور کارروائیوں کو نظرانداز کرکے ان سے جلد ملاقات کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔ اگر انہیں اعتراف ہے کہ بلوچستان کے کئی علاقوں میں حکومتی رٹ قائم نہیں تو انہیں حکومتی رٹ قائم کرنے کیلئے اپنے ماتحت ایجنسیوں کو متحرک کرنا چاہیے اور وفاق کی مدد حاصل کرنی چاہیے یا اپنی ناکامی کا رونا رونا چاہیے؟ اگر ملک کی سلامتی کے درپے عناصر فراری کیمپوں میں موجود ہیں توانہیں ملک دشمن کارروائیوں سے روکنا کس کی ذمہ داری ہے۔ اگر حکومت خود ہی امن و امان کی بحالی میں اپنی ناکامی کااعتراف کریگی تو پھر شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری کون پوری کریگا؟ وزیراعلیٰ بلوچستان کی یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کئے بغیر قیام امن کیلئے بات چیت ممکن نہیں مگر یہ مسئلہ بھی تو حکومت نے خود ہی حل کرنا ہے جس کیلئے وزیراعلیٰ کو وفاقی اور صوبائی ایجنسیوں کی معاونت سے جو بھی اقدامات اٹھانا پڑیں‘ اٹھانے چاہئیں۔ انہیں اس امر کا احساس ہے کہ آئین کے اندر رہ کر ہی بلوچستان کے مسائل کو حل کرنا ہو گا تو اس کیلئے انہیں ان تلخیوں کا تدارک کرنا ہو گا جو فوجی آمریت کے دوران ایجنسیوں کے کردار کی وجہ سے پیدا ہوئیں اور اب انتہاءکو پہنچی ہیں۔ انکی وزارت اعلیٰ پر و قومی اتفاق رائے کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ ناراض قوم پرستوں کو سیاست کے قومی دھارے میں لانے کیلئے بہتر کردار ادا کر سکیں گے۔ اس حوالے سے انہیںبہرصورت وفاقی حکومت اور اسکے حلیف بلوچ قوم پرست قائدین کے اعتماد پر پورا اترنا چاہیے۔ اگر بلوچستان میں قیام امن کیلئے ان سے وابستہ توقعات پوری نہ ہو پائیںتو پھر بلوچستان کے حالات کی بہتری کی کوئی بھی تدبیر کارگر نہیں ہو سکے گی‘ اس لئے وہ دسمبر میں اپنی طلب کردہ اے پی سی میں بلوچستان کے امن و امان کی بحالی اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ٹھوس ایجنڈہ لے کر آئیں اور پھر اسے عملی جامہ بھی پہنائیں۔ حکمرانوں اور قانون نافذ کرنیوالے سکیورٹی اداروںکی جانب سے قیام امن کے سلسلہ میں اپنے فرائض کی بجاآوری سے بے نیازی ہی قوموں کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔