چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سندھ میں اسسٹنٹ کنزرویٹو جنگلات کی بھرتیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران بھرتیوں کے عمل پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور سیکرٹری جنگلات، چیف سیکرٹری سندھ اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے جواب طلب کر لیا۔ دوران سماعت فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر تعلقات پر نوکریاں دینی ہیں تو پھر جامعات بند کر دیں۔ ہماری دلچسپی صوبے کے عوام کے مفاد سے ہے۔ انہوں نے اس امر کا سخت نوٹس لیا کہ محکمہ جنگلات میں کنزرویٹو افسران کی تعیناتی کے لیئے عمر کی حد میں پندرہ سال کی رعایت دی گئی اور 45 سال کے ب±ڈھوں کو بھرتی کیا گیا۔ عمر کی رعایت مخصوص حالات میں ہی مل سکتی ہے۔ یہاں تو بھرتیوں کے لیئے کئی امیدوار موجود تھے۔ 45 سال کی عمر کا شخص 60 سال میں ریٹائر ہو جائے گا۔ پھر ریٹائرمنٹ پر اسے پنشن اور مراعات دی جائیں گی۔ یہ سب کچھ کر کے ہم دنیا سے بھیک مانگتے ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے سندھ ایڈووکیٹ جنرل آفس میں 80 لاءافسران کے تقرر کا بھی نوٹس لیا اور باور کرایا کہ لاءافسران کی اتنی بڑی فوج ہونے کے باوجود عدالت میں کوئی پیش نہیں ہوتا۔ انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو ہدایت کی کہ تمام اضافی لاءافسران کو فارغ کر دیا جائے۔ یہ امر واقع ہے کہ ہمارے منتخب جمہوری سیاسی نظام میں اقرباءپروریوں، کرپشن کلچر کے پھیلنے اور میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ملازمتوں کے لیئے سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کرنے اور من پسند لوگوں کو نوازنے کے نتیجہ میں ہی ہمارے پڑھے لکھے نوجوان طبقہ میں مایوسی اور سسٹم کے ساتھ بددلی کی فضا پروان چڑھ رہی ہے۔ نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیئے دھکے کھا رہے ہیں جنہیں فروغ پاتے کرپشن کلچر میں سوائے مایوسی و نامرادی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا چنانچہ تنگ آکر وہ یا تو اپنی جان لینے پر اتر آتے ہیں یا جرائم کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کے ہمارے حکمران طبقات بھی برابر کے ذمہ دار ہیں جو کرپشن کلچر اور اقربا پروری کو فروغ دے کر عام آدمی کو سلطانءجمہور کے ثمرات سے محروم رکھے ہوئے ہیں اور انہیں سسٹم سے بدگمان کر رہے ہیں۔ یقیناً قانون و انصاف کی حقیقی عملداری سے ہی ان سماجی برائیوں اور ناانصافیوں کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیئے فاضل چیف جسٹس قانون و انصاف کی عملداری یقینی بنا کر سسٹم کی اصلاح کے لیئے موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ میرٹ کی دھجیاں تو صرف محکمہ جنگلات میں ہی نہیں، ہر سرکاری اور نیم سرکاری ادارے میں بکھیری جارہی ہیں۔