پی پی پی کے قیام (1967) کو نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے- 60ءکی دہائی نظریات اور عشق انقلاب کی دہائی تھی- پاکستان کے نوجوان سوشلزم سے بہت متاثر تھے- کارل مارکس لینن چی گویرا اور ماو¿زے تنگ کی کتب بڑے شوق سے پڑھتے اور ایشیا سرخ ہے کے خواب دیکھتے تھے- ذوالفقار علی بھٹو ہر چند کہ جنرل ایوب خان کی کابینہ میں شامل تھے مگر ان کو بائیں بازو کا ترجمان سمجھا جاتا تھا- وہ چین نواز تھے۔ ماو¿زے تنگ اور چو این لائی کے قابل اعتماد دوست تھے- ذوالفقار علی بھٹو نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے پاکستان کو آزاد خارجہ پالیسی دی- امریکہ ان سے ناراض تھا- جنرل ایوب خان نے انہیں امریکی اشارے پر کابینہ سے فارغ کر دیا- وہ اپنے سوشلسٹ خیالات کی وجہ سے پاکستان کے طلبہ اور ترقی پسند افراد کے دلوں میں گھر کر چکے تھے- جب وہ کابینہ سے فارغ ہوئے تو ان کے دوستوں نے انہیں سوشلسٹ سیاسی جماعت تشکیل دینے کا مشورہ دیا- نئی سیاسی جماعت کا منشور سوشلسٹ دانشور جے اے رحیم نے تیار کیا- جس کے بنیادی اصولوں اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں- اور ایک عوامی نعرے" مانگ رہا ہے ہر انسان روٹی کپڑا اور مکان " نے پی پی پی کا انقلابی نظریاتی منشور عوام کے سامنے کھول کر رکھ دیا- پاکستان کے سوشلسٹ دانشور مزدور کسان محنت کش افراد بھٹو کی کرشماتی نظریاتی شخصیت اور انقلابی منشور سے متاثر ہو کر پی پی پی میں شامل ہونے لگے- پاکستان کے غریب عوام کو پہلی بار کسی سیاسی جماعت نے شناخت اور اہمیت دی تھی-پی پی پی کی بنیادی دستاویزات کے مطابق یہ سرمایہ داری جاگیر داری اور نوکر شاہی کے خلاف سیاسی جماعت تھی- استحصال سے پاک معاشرے کا قیام اس کا انقلابی نظریہ تھا جو جیالوں میں جوش پیدا کرتا تھا- پی پی پی اپنی قیادت منشور اور محنت کش افراد کے اتحاد کی بناءپر سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے والی جماعت تھی- 1970ءکے انتخابات سے قبل ہالہ کانفرنس میں شریک افراد کی واضح اکثریت انتخاب کے بجائے انقلاب برپا کرنے کی حامی تھی مگر جاگیردارانہ پس منظر انقلابی بھٹو پر غالب آ گیا اور انہوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا- پاکستان کے غریب عوام نے انتخابات میں بھی انقلابی جذبے سے حصہ لیا اور پی پی پی مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹی بن کر ابھری- ذوالفقار علی بھٹو کا بیان اخبارات کے صفحات میں موجود ہے کہ انہوں نے پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کو روک دیا- عوام نے سوشلسٹ انقلاب کا تاریخی موقع کھو دیا-
اقتدار میں آنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے وزیراعظم کی حیثیت سے پارٹی منشور پر عملدرآمد کی پوری کوشش کی- پارٹی کا منشور انقلابی تھا مگر ریاستی ڈھانچہ عوام دشمن تھا- عوام کا خون نچوڑنے والی کلیدی صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا گیا۔ ان کو چلانے کے لیے انقلابی کیڈر موجود نہیں تھا لہذا نوکر شاہی کو ایڈمنسٹریٹر بنایا گیا- زرعی اصلاحات کا نفاذ ہوا مگر ان پر مکمل طور پر عملدرآمد نہ ہو سکا - مزدوروں کے لیے پہلی بار اصلاحات کی گئیں - مشکلات کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو اپنے نظریے سے وابستہ رہے- اگر اپنے نظریے سے سمجھوتہ کر لیتے تو پھانسی سے بچ سکتے تھے- جنرل ضیاءالحق نے اپنے طویل مارشل لاءکے دوران مذہب کے نام پر نظریاتی سیاست کے خاتمے کے لیے ریاستی مشینری کو بے دریغ استعمال کیا- پاکستان کے سیاسی کلچر میں مذہب اور سرمایہ کو داخل کر دیا- بیگم نصرت بھٹو محترمہ بینظیر بھٹو اور پی پی پی کے نظریاتی جیالے اگر مارشل لاءکے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے قربانیاں نہ دیتے تو پی پی پی اپنا سیاسی وجود کھو بیٹھتی- شادی سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو پی پی پی کی نظریاتی سیاست سے وابستہ رہیں - البتہ شادی کے بعد ان کی سوچ میں قدرے تبدیلی آئی- انہوں نے آئیڈیل ازم کی بجائے pragmatism یعنی "نتائج پسند رویہ" اختیار کیا- وہ رفتہ رفتہ مفاہمت کی سیاست کی ترجمان بن گئیں- انہوں نے مسلم لیگ نون کے لیڈر میاں نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت بھی کیا جو مفاہمتی سیاست کا ثبوت ہے- محترمہ بےنظیر بھٹو نے مفاہمت کے موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی- پی پی پی حالات کے جبر کی بناءپر بنیادی نظریات سے انحراف کرتے ہوئے مفاہمت کی سیاست کی جانب آگئی - مفاہمت کی سیاست کی وجہ سے سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقے پارٹی پر حاوی ہوگئے اور نظریاتی جیالے نظر انداز ہونے لگے- محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے رہا سہا نظریاتی توازن ہی بگاڑ دیا- ان کے سیاسی فلسفہ کے مطابق سیاست سرمایے کا کھیل ہے جس میں نظریات کی کوئی گنجائش نہیں- محترمہ بےنظیر بھٹو نے شہادت تک کارکنوں سے رابطہ استوار رکھا - آصف علی زرداری صدر پاکستان بن کر ایوان صدر کے اسیر ہوگئے- ان کا جیالوں سے رابطہ مکمل طور پر ختم ہوگیا اور پاکستان کی اکثریتی قومی جماعت سندھ تک سکڑ کر رہ گئی- آج کا پاکستان جوانوں کا پاکستان ہے- 5 کروڑ نوجوان اگلے انتخابات میں ووٹ کا حق استعمال کریں گے- ان حالات میں بلاول بھٹو زرداری کی قیادت فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے- بشرطیکہ وہ اپنے عظیم نانا ذوالفقار علی بھٹو کی نظریاتی سیاست کی جانب لوٹ آئیں - پاکستان بھر کے نظریاتی کارکنوں کا قومی کنونشن بلائیں جو دو روز جاری رہے اور جس میں زیادہ سے زیادہ جیالوں کو بات کرنے کا موقع دیا جائے- اس کنونشن کی سفارشات کی روشنی میں مستقبل کا قومی ایجنڈا تیار کیا جائے تاکہ پی پی پی اور ذوالفقار علی بھٹو کا ادھورا مشن استحصال سے پاک معاشرے کا قیام مکمل کیا جا سکے- بلاول بھٹو نظریاتی سیاست کا آغاز کرکے نظریاتی لیڈر کا خلاء پر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں- پی پی پی کا اساسی منشور آج بھی پی پی پی اور قیادت کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتا ہے- آصف علی زرداری کو فعال سیاست سے ریٹائر ہو جانا چاہیے - بلاول بھٹو جب تک مکمل اختیارات کے حامل نہیں ہوں گے پاکستان کے نوجوانوں کے شکوک وشبہات ختم نہیں ہو سکیں گے- سیاست میں یہ نہیں ہو سکتا کہ عملی سیاست بلاول بھٹو کریں جبکہ تنظیمی عہدے اور پارٹی ٹکٹ دینے کا اختیار آصف علی زرداری کے پاس ہو- آصف علی زرداری نے اپنے تازہ انٹرویو میں کچھ ایسی باتیں کہہ دی ہیں جن سے بلاول بھٹو کے لیے مشکلات پیدا ہوئی ہیں- آصف علی زرداری کے انٹرویو کی ہر گز ضرورت نہیں تھی-یہ موقع ہے کہ پی پی پی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی انتخابی مہم اور انتخابات کے بعد کے منظر نامے کے سلسلے میں کلیدی نوعیت کے فیصلے کرلے تاکہ پارٹی یک سوئی اور یک جہتی کے ساتھ انتخابی مہم کو کامیاب بنا سکے-پی پی پی ایک نظریاتی عوامی جماعت ہے اور نظریات پر ثابت قدم رہ کر ہی عوام کی مقبول جماعت بن سکتی ہے-