اہم تعیناتیاں مکمل ،اب عوامی خواہشات کی باری!

آرمی چیف کا تقرر ایک معمول کی کارروائی ہوتی ہے مگر ہمارے ملک میں اس تعیناتی کو غیر معمولی بنا دیا گیا ہے۔ اسکی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ پاکستان میں آرمی چیف کی حیثیت ایک طاقتور سٹیک ہولڈر کے طور پر مانی جاتی ہے۔ جنرل باجوہ نے یومِ شہدا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج اب سیاست سے الگ ہو گئی ہے اور یہ جمہوریت کو مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ جب بھی فوج کی بات ہوتی ہے تو اسکی اعلیٰ قیادت کی نظریں اٹھتی ہیں۔ اسی نے بڑے بڑے فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ پاکستان کی افواج کو دنیا کی بہترین پیشہ ور افواج میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسکی قیادت کرنا کسی بھی جنرل کیلئے اعزاز ہے۔ پاک افواج نظم و ضبط میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ پاک فوج کے بڑے بڑے بہت بڑے فیصلے کرتے ہیں۔ آرمی چیف کو طاقت کا سرچشمہ سمجھا جاتا ہے اس کے ایک اشارے پر ہر جوان کٹ مرنے پر ہمہ وقت تیار ہوتا ہے۔ سپاہ سالار جدھر دیکھتا ہے پوری فوج ہی نہیں قوم بھی ادھر دیکھتی ہے۔ مگر آرمی چیف کی تقرری میں آئین اور قانون کے مطابق طاقتور آرمی چیف کا بھی کوئی رول نہیں ہوتا۔ یہ فیصلہ حکومت نے کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں جب بھی ایسا موقع آتا ہے ایک ہیجانی کیفیت ہوتی ہے۔ اس مرتبہ تو کچھ زیادہ ہی تھی۔ اس میں ہم ایسے الجھے کہ سارے معاملات پس پشت چلے گئے ۔
جنرل باجوہ نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ مشرقی پاکستان کے المیہ کی ذمہ دار پاک فوج نہیں ہے یہ سیاسی شکست تھی۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انڈین انٹیلی جنس ایجنسی ”را“ اور اسکی پروردہ تنظیم مکتی باہنی نے مشرقی پاکستان میں سرعام مداخلت کی۔ پاکستان توڑنے کی سازش میں مصروف ہو گئے تو کیا اس وقت محبت وطن پاکستانی اور ملک کی سلامتی کی ذمہ دار پاک فوج کیا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتی۔ایک طرف ملک کی سلامتی کو خطرات ہی نہیں بلکہ جان لیوا بیماری لگ چکی تھی۔ اور دوسری طرف عالمی سامراج دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک پاکستان کو خدانخواستہ ٹکڑے ٹکڑے دیکھنا چاہتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے دوران بے شمار فکشن اور ناول گھڑے گئے جن کے زہر آلود پروپیگنڈا نے مشرقی پاکستانیوں کو مغربی پاکستان سے متنفر کر دیا گیا) میں نے زندگی کا طویل عرصہ مغربی ممالک میں گزارہ ہے۔ جہاں بھی فوجی سربراہوں کی تقرری ہوتی ہے مگر کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں ایک تماشا لگاہوتا ہے۔ ایک نان ایشو کو ایشو اور سیاسی مسئلہ بنا دیا جاتاہے۔ آرمی چیف اور داماد چُننا ہمارے ملک میں انتہائی مشکل کام ہے۔ ہمارے ملک کی حکومت نے جی ایچ کیوسے سمری آنے کے بعد میرٹ اور سنیارٹی کی بنیاد پر فیصلہ کیا۔ جنرل ساحر شمشادمرزا کو جوائنٹ سروسز کا جبکہ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف مقرر کیا گیا۔ کچھ لوگوں کو توقع تھی کہ صدر عارف علوی اس تقرری میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں مگر ان کی طرف سے سابق وزیراعظم عمران خان سے مشاورت کے بعد منظوری دے دی گئی۔ دو جرنیلوں کی شہرت بہترین پیشہ ورانہ آفیسرز کی ہے۔ وہ ملک کو لے کر آگے بڑھیں گے۔ انکی راہنمائی میں پاک فوج اپنا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کے اندر دہشتگردی کے خاتمے اور سرحدوں کے باہر سے دَر آنیوالے خطرات کےخلاف اپنا بہترین کردار ادا کرےگی۔ رہنمائی سے میرے سامنے ایک اقتباس آ گیا۔”زندگی کی اونچی نیچی ڈھلوانوں اور پُرخطر راستوں سے یہ سبق ملا ہے کہ اگر رہنما ان راستوں اور انکے نشیب و فراز سے اچھی طرح واقف ہو تو تاریک سے تاریک رات میں بھی خطرناک راستہ بڑے اطمینان سے طے ہوجاتا ہے بس شرط یہ ہے کہ انسان ایسے راستوں کو عبور کرتے ہوئے اپنی عقل لڑانے کی بجائے اپنے آپ کو رہنما کے حوالے کر دے۔“بات تو انتہائی سادہ، سیدھی اور صاف ہے لیکن اگر یہی بات مشائخ طریقت کہہ دے تو آج کل ان پر اندھی تقلید اور شخصیت پرستی کے طعنوں کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے۔
فوج سربراہان کی تعیناتی خوش اسلوبی سے طے ہونے پر پوری قوم مطمئن ہے ہم جنرل ساحر شمشاد مرزا اور جنرل عاصم منیر شاہ کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔قارئین! الحمد اللہ اہم تعیناتیاں ہو چکی ہیں اور اب موجودہ حکومت کو عوامی مزاج کا ادراک ہو جانا چاہیے ۔ اب ہم عوام کو مزید بے وقوف نہیں بنا سکتے اور نہ ہی یہ وہ زمانہ ہے کہ جس میں بات دب جاتی تھی۔اس وقت یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ عوام اب ایک بدلا ہوا پاکستان اور فوری الیکشن چاہتے ہیںاس لیے عوامی امنگوں کے مطابق عوامی خواہشات کا احترام کیا جائے۔