پیر‘23 ربیع الثانی 1443ھ29نومبر2021ء

اسلام آباد : پی ٹی آئی کے جلسے میں نوجوانوں کے حکومت مخالف نعرے
جیسے حالات ملک میں چل رہے ہیں‘ ان کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو یہ کوئی اچھنبے والی بات نہیں۔ اس وقت اگر خود وزیراعظم سڑک پر نکل کر لوگوں کے پاس جائیں تو انہیں بھی تیزوتند جملے اور مخالفانہ نعرے سننے کو ملیں گے۔ آزمائش شرط ہے۔ کسی بھی شہر کا انتخاب خود وزیراعظم کر لیں۔ بس بتانا کسی کو نہیں ورنہ سادہ کپڑوں میں ملبوس سینکڑوں افراد وہاں پہلے سے پہنچ کر کنٹرول سنبھال لیتے ہیں اور پورا بازار انہی سے بھرا ہوتا ہے جو وزیراعظم زندہ باد کے نعرے لگا لگا کر حکمرانوں کو ماموں بناتے ہیں جبکہ شہری اس تمام عرصے میں بازار سے بے دخل رہتے ہیں۔ جیسے ہی حکمران واپس جاتے ہیں‘ بازار کی اصل شکل اور رونق بحال ہو جاتی ہے۔ کبھی تو حکمران چپکے سے بھیس بدل کر باہر نکلیں‘ عوام کے پاس جائیں تو انہیں معلوم ہوگا خلق خدا کیا کہتی ہے۔ ان کو کس طرح بے یارومددگار چھوڑ کر بھوکا پیاسا مرنے کیلئے چھوڑا گیا ہے۔ حکمرانوں کے اردگرد جو لوگ ہیں‘ کہنے کو تو وہ عوامی نمائندے ہیں مگر ان کا رہن سہن‘ گھر بار‘ معاشرتی نظام سب اشرافیہ والا ہے۔ ان کا تعلق بھی اسی طبقہ سے ہے۔ انہیں غریب غرباء کا نمائندہ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لئے اسلام آباد میں اسد عمر کے جلسے میں تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق نوجوان نے جب سٹیج پر چڑھ کر مائیک سنبھالا اور حکومت مخالف نعرے لگائے تو اسے اس کا بھرپور جواب بھی ملا۔ اب بھی اگر وزیراعظم عوام یعنی ووٹروں کا مزاج نہیں سمجھے تو پھر جو نہ سمجھے اسے خدا ہی سمجھے۔ یوم حساب یعنی الیکشن قریب ہے۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔
٭٭٭٭٭
پٹرول 50 روپے لٹر سستا کرنے کیلئے قرار داد پنجاب اسمبلی میں جمع کرا دی گئی
یہ سب ڈرامہ بازی ہے۔ مسلم لیگ (نواز) کی ایم پی اے سمیرا کومل نے پنجاب اسمبلی میں جو قرار داد جمع کرائی ہے کیاوہ منظور ہو گی جی نہیں ایسا تو تب بھی ممکن نہیں ہوتا اگر خود مسلم لیگ (نواز) کی ہی حکومت کیوں نہ ہوتی۔ اس لیے ایسی بے مقصد باتوں اور قراردادوں کا مقصد صرف عوام کو بیوقوف بنا کر ان کی ہمدردی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جب مسلم لیگ کی حکومت تھی تو پی ٹی آئی والے 45 روپے سے اضافی ٹیکس وصولی کا الزام لگا کر پٹرول سستا کرکے 60 روپے فی لٹر کرنے کا شورمچاتے تھے۔ آج پی ٹی آئی کی حکومت ہے تو مسلم لیگ (نواز) 50 روپے فی لٹر پٹرول سستا کرنے کی قرارداد اسمبلی میں لا رہی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ایسی قراردادوں کاانجام کیا ہوتا ہے۔ حکومتی ارکان انہیں پہلے مرحلے میں ہی مسترد کر دیتے ہیں۔ ورنہ اس پر غور و فکرکے لیے اسے سرد خانے کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ عوام کو حقیقی معنوںمیںریلیف دینے کا کوئی بھی بل ہو اس کا انجام اس طرح سرد خانے کی زینت بننا ہوتا ہے۔ ایسی قراردادوں کے ثمرات نہ پہلے کبھی عوام تک پہنچے ہیں نہ اب امید ہے اس لیے ایسی خبریں صرف دل پشوری کرنے کے ہی کام آتی ہیں۔ اس لیے سمیرا کومل بھی ایسی قرارداد پیش کر کے اپنا اور لوگوں کا دل خوش کر رہیں۔
٭٭٭٭٭
جیل تو نوجوانوں کے لیے بنی ہے۔ تیز رفتاری سے روکنے پر ڈرائیور کا خاتون کو جواب
جی ہاں واقعی سچ کہا ہے اس تیز رفتاری کے عادی ڈرائیور نے‘ جیلیںان جیسے قاتلوں کے لیے ہی بنی ہیں جن کے ہاتھوں سڑکوں پر آئے روز درجنوں جوان بوڑھے بچے اور خواتین حادثوں کا شکار ہو کر جان سے جاتے ہیں۔ ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری کی اس سے عمدہ مثال کیا ہو گی کہ جب اس تیز رفتاری کے عادی مریض ڈرائیور کو ایک مسافر خاتون نے منع کیا کہ گاڑی تیز نہ چلائے تو اس نے یہ جواب دیا۔ اب کراچی ٹریفک پولیس کا فرض ہے کہ اس خبر کی اشاعت کے بعد وہ ہر چوک پر ہر سڑک پر ایسے ڈرائیوروں کو قانون کی طاقت کا مزہ چکھائے۔ بس یا ویگن کو ایف سولہ سمجھ کر اڑانے کی سزا کے طور پر لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کے جرم میں بھاری جرمانہ کرے تاکہ ان کی تیز رفتاری کا خمار اترے جو ایک دو بار چالان کے بعد بھی باز نہ آئیں تو واقعی انہیں جیلوں کی سیر کرائیں تاکہ ان کو پتہ چلے کہ جیل کی دنیا کتنی مزیدار ہے۔ جہاں کام کاج کچھ نہیں کرنا ہوتا بس مفت کی روٹیاں توڑنا ہوتی ہیں اور دن رات بس ‘ویگن کو ہوائی جہاز بنا کر اڑانے کے خواب دیکھنے کے لیے بہت وقت ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے ہتھکڑیاں زیور اور جیلیں سسرال کا درجہ رکھتے ہیں۔ سو ان کو جلد از جلد ان کا زیور پہنا کر سسرال کی سیر کرانی چاہئے تاکہ سڑکوں پر امن رہے اور لوگوں کی جان تیز رفتاری سے محفوظ رہے۔ کیونکہ کہتے ہیں
تیزی سب کو بھاتی ہے
پر جان اسی میں جاتی ہے
ہندوستان کی فلم انڈسٹری مودی حکومت کے ہاتھوں تقسیم ہو گئی
گزشتہ 72 برسوں سے ہندوئوں کی تمام تر مکاری کے باوجود بھارتی فلم انڈسٹری پر مسلم اداکاروں کا راج ہے۔ دلیپ کمار اور مدھوبالا کے سوا شاید ہی کسی مسلمان اداکار نے ہندوئوانہ فلمی نام رکھا۔ اب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت کے لیجنڈ اداکاروں میں دلیپ کمار‘ نرگس‘ مینا کماری ،مدھو بالا کا نام سرفہرست رہا۔ پھر ان کے بعد قادر خان‘ سلمان خان‘ شاہ رخ خان‘ عامر خان‘ سیف خان‘ کس کس کا نام لیا جائے۔ یہی حال گلوکاری کے میدان میں ہے۔ ثریا‘ شمشادبیگم‘ طلعت محمود‘ محمد رفیع سے لیکر موسیقی میں نوشاد سے اے آر رحمن تک جادو آج تک سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ شاعروں میں جانثار اختر‘ شکیل بدایونی‘ مجروح سلطان پوری‘ساحر لدھیانوی ، کیفی اعظمی جیسے قدآور شاعروں کی بدولت ہی بھارت کی فلم انڈسٹری آج دنیا میں بالی وڈ کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے۔ اگر ان کو نکال دیا جائے تو بھارتی فلمی دنیا کی ساری داستان بے رنگ اور پھسپھسی ہو جائے گی۔ یہ تو مشت ازخر وارے صرف نمونہ ہے‘ ورنہ اور بھی ہزاروں مسلم افراد نے بھارتی فلم انڈسٹری کو اس بام عروج تک پہنچایا۔ اس کے باوجود ہندوئوں نے دلی طورپر مسلمانوں کو سراہنے کی بجائے ان کی حوصلہ شکنی کی۔ دلیپ کے مقابلے میں پدم شری کا ایوارڈ راج کپور کو دیا جانا اس کا ثبوت ہے۔ بہرکیف اب بھارت میں بی جے پی کی بدولت مسلمانوں کے خلاف جو نفرت انگیز مہم چل رہی ہے‘ اس کے اثرات سے فلم انڈسٹری بھی محفوظ نہیں رہی۔ ہندو جنگجو حکمرانوں کو ہیرو اور مسلمان حکمرانوں کو ظالم غضبناک بنا کر دکھایا جا رہا ہے۔ یہاں کام کرنے والے مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ کبھی انڈر ورلڈ مافیا سے ان کا رشتہ جوڑا جاتا ہے‘ کبھی ان کے اسلام کے حوالے سے خیالات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اب تو حد ہی ختم کردی گئی ہے۔ مسلم فنکاروں کے بچوں تک کو منشیات کیس میں ملوث کرکے انہیں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے جس کی مثال شاہ رخ خان کے بیٹے کے ساتھ ہونے والا سلوک ہے جبکہ ان کی بیوی گوری ہندو ہے مگر پھر بھی انہیں معاف نہیں کیا جا رہا جو ہندو انتہا پسندی کی بدترین مثال ہے۔