اسلام آباد چیمبر کا تعزیتی ریفرنس

وہ اگلا موڑ جدائی کا اسے آنا ہے وہ تو آئے گا۔اس موڑ سے بچنے کے لئے نہ جانے ہم کیا کچھ کر گزرتے ہیں مگر اس موڑ کا وقت مقرر ہے ۔ اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی جانے والا یہ موڑ مڑ جاتا ہے اور ہم دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو یہ انسان کے بس میں ہی نہیں کہ وہ اپنے کسی پیارے کو یہ موڑ مڑنے سے روک سکے ؟ بعض خوش قسمت ہوتے ہیں جو زندگی کے اس موڑ پر کھڑے ہو کر اشاروں سے بتا جاتے ہیں کہ میں اب جدا ہونے جا رہا ہوں اور کچھ بغیر بتائے اچانک دل کا دورہ پڑنے سے موڑ مڑ کر نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں ۔یہ ان بچاروں کا قصور نہیں ہوتا ان کی لکھی ایسی ہوتی تھی ۔ فروری دوہزار گیارہ میں قدرت نے ہمیں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے این ایس ڈبلیو بارہ کے پلیٹ فارم پر ستر کے قریب چاروں صوبوں کشمیر اور گلگت بلتستان کے علا قوں کے وکلا ،بزنس مین ،سفیر، سینٹر، ایم این اے ،ایم پی اے ، جنرل ،کرنل ، برگیڈئر ز آرمی نیوی اور ائیر فورس کے اعلی افسران پر مشتمل گروپ ہی نہیں سب کا یہ ایک خوبصورت گلدستہ بنا۔اب ہم سب ایک گلدستہ کی طرح اکھٹے ہوئے اور ابھی تک اکھٹے ہیں ۔ہر خوشی غمی میں شریک ہیں ۔ وقت کبھی کبھی بڑا بے رحم ہو جاتاہے ۔جو گلدستہ دو ہزار گیارہ میں بنا تھا اب اس کے پھول وقت نے گلدستے سے الگ کرنے شروع کر دئیے ہیں ۔ اکیس نومبر کو اسلام آباد کے دوستوں نے سابق صدراسلام آباد چیمبر آف کامرس زاہد مقبول کے تعاون سے تعزیتی ریفرنس کیا ۔اس میں وڈیو لنک کے ذریعے بھی جن ساتھیوں نے حصہ لیا ان میں سابق ایئر چیف مارشل سہیل امان ،مصر میںپاکستان کے سفیر جنرل سعد خٹک اور اختر عباس ایڈووکیٹ شا مل تھے ۔ اس موقع پر اسلام آباد سے سینٹرصفدر عباسی، برگیڈیئر طاہر نقوی ، میجر احسن ولی خان، میڈم شازیہ، عبداﷲ خان، خرم جواد، زاہد مقبول ،طلعت عباس ، طاہر صدیقی مرحوم کے بیٹے اسامہ طاہر اور بیگم طاہر اور ولی خان کے بیٹے اور شہید کے ایک ساتھی نے خصوصی شرکت کی۔ اس ریفرنس میں اٹھارہ ساتھیوں نے شامل ہونے کی حامی بھری تھی لیکن شامل صرف آٹھ ہوئے ۔یہ ریفرنس میجر جنرل طاہر حبیب صدیقی ، سندھ اسمبلی کے ایم پی اے حاجی منور عباسی ، ایم پی اے سندھ اسمبلی جام مدد علی ،ایڈمرل شفیق صاحب کی مرحومہ والدہ اور میجر ولی خان کے نوجوان صاحبزادہ اور آرمی افسر ہرارا کے شہید ہو جانے پر منعقد کیا گیا تھا ۔ اس گلدستے کا پہلا پھول طاہر حبیب چند دن اسپتال رہنے کے بعد پچھلے سال اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ طاہر صدیقی نہایت ملنسار اور خوش اخلاق دوست یار ساتھی تھے ۔ دعوتوں اور محفلوں کی جان تھے۔ گھر پر دعوتیں کرتے توکھانے کی اشیا خود اٹھا اٹھا کر پیش کرتے ۔ بیگم جنرل طاہراور بیٹا بھی وہاںموجود تھے ۔ بہت اچھے خوبصورت انداز میں جنرل طاہر کو یاد کیا ۔ طاہر نقوی صاحب نے کہا طاہر مرحوم میرے کورس میٹ ہی نہیں پلا ٹون میٹ بھی تھے۔ کہا کرتے تھے جس کا کام کرانا ہوتا ہے کرسی چھوڑ کر اس کے پاس جایا جا تا ہے ۔ کسی کے کام آ کر خوش ہوتے تھے ۔آج اگر زندہ ہوتے تو ریفرنس میں سب سے پہلے موجود ہوتے ۔اس گلدستے کا دوسرا پھول منور عباسی جو ہمارے ساتھی سینٹرصفدر عباسی کے بڑے بھائی اور سندھ اسمبلی کے ممبر تھے۔سندھ کی مشہور سیاسی شخصیت سپیکر اسمبلی ڈاکٹر عباسی کے بڑے بیٹے تھے۔ منور عباسی وکیل اور لفٹ کی سیاست کے لیڈر تھے ۔کچھ روز اسپتال میں رہے لیکن اسی سال جولائی میں ا ﷲ کو پیارے ہو گئے۔ان کے جانے سے ہمارے گلدستے کا ایک اور پھول کم ہو گیا ۔ اس گلدستے کے تیسرے پھول جام مدد علی تھے جو کچھ روز اسپتال میں رہنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ یہ ہمارا تیسرا پھول تھا جو گلدستہ سے الگ ہوا ۔ جام نے اس سال گرمیوں میں اپنے تمام دوستوں کو آموں کے تحائف بھجے ۔کراچی میں گھر پر سپیشل دعوتیں کرتے ۔مچھلی اور شکار کا گوشت کھلاتے ۔سندھی اجرک پہناتے ۔ محبت نچاور کرنے والے ساتھی تھے ۔یقین نہیں آ رہا کہ آپ بھی اس گلدستے کو چھوڑ چکے ہیں ۔ ہمارے ساتھی میجر احسن ولی خان کے جواں سال صاحبزادے ہیرارا ولی آرمی کے لانگ کورس میں ٹرینگ کے دوران پانچ میل کی ریس کرتے ہوئے جب اختتامی لائن کراس کر لی تو دل کا دوراہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور کم عمری میں ہی شہادت کا جام نوش کرتے ہوئے اﷲ کے پاس چلے گئے۔ اس کے ساتھی اسے ہیرو کہا کرتے تھے ۔ بہترین فٹ بالر تھا۔اپنے کام سے کام رکھتا ۔ ابھی تو اس کے کھیلنے اور خوش خبریاں دینے والی عمر تھی لیکن سب کو اداس اور روتا چھوڑ کر ابدی نیند سو گیا اور سب کو جگا گیا ۔ اس موقع پر ولی بھائی اور آپ کی فیملی نے جس صبر کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ ورنہ سوچ کر ہی جسم کانپ اٹھتا ہے ۔ا ﷲ آپ سب کو صبر دے آمین۔ ہمارے ساتھی ایڈمرل ریٹائرڈ محمدشفیق کی والدہ محترمہ نوے سال سے زیادہ کی عمر میں وفات پائی ۔بتایا گیا کہ آخری وقت تک اپنے ہوش وحواس میں رہیں ۔ والدہ کی دیکھ بھال ہم خود کرتے تھے ساتھ میں ہم نے ایک میڈ بھی رکھی ہوئی تھی ۔جو رہتی بھی ہمارے سرونٹ کوئائٹر میں تھی ۔ اس میڈ کی بہن کو پہلے سے کرونا تھا ۔وہ گھر پر اپنی بہن کو ملنے آئی جس سے ہماری ملازمہ بھی کرونا کا شکار ہو گئی ۔یہ ہماری خادمہ والدہ کی فل ٹائم خدمت پر معمور تھی اس سے کرونا ماں جی کو لگا۔ وقت پر علاج کرانے سے تندرست ہو گئی تھی مگر ٹھیک ہونے کے دو ہفتے بعد دوبارہ بخار ہوا اور خالق حقیقی سے جا ملیں ۔ والدین اولاد اور بہین بھائیوں کی جدائی کا دکھ اﷲ کسی کو نہ دے ۔یہی رشتے سب سے پیار ے اور مضبوط ر شتے ہوتے ہیں ۔ اس ریفرنس کے موقع پر سب کو اپنے اپنے پیارے یاد آئے ۔ اس ریفرنس میں موجود ساتھیوں نے اپنا حق ادا کیا ۔بچھڑنے والے ساتھیوں کو سب نے زبردست خراج تحسین پیش کیا ۔اس پروگرام کے آخر میں سابق ایڈمرل محمدشفیق نے دعائے مغفرت سے سماع باند ھے رکھا ۔ آخر میں اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے سابق صدر زاہد مقبول نے بطور میزبان سب کا شکریہ ادا کیا۔ معذرت خواہ ہوں کہ دوستوں کی سب باتیں یہاں لکھ نہیں سکا ۔آپ دوستوں سے گزارش ہے کہ ایسے موقع پر ضرور وقت نکالا کریں ۔ شامل ہونے سے جدائی کے لگے زخموں پر مرہم رکھنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ ۔یقین نہیں آ رہا کہ ہمارے پیارے ہم سے جدا ہو چکے ہیں ۔ اب ہمارے ساتھ سب کی یادیں ہی ہیں ۔ دعا ہے جو ہمارے پیارے ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جدا ہو چکے ہیں اﷲ پاک سب کی منزلیں آسان کرے ۔ہم سب کو صبرو جمیل عطا فرمائے ۔آمین