شہر بے مثال…قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

بھلے وقتوں کا ذکر ہے جب خوبصورت وفاقی دارالحکومت سیاسی، سماجی، ثقافتی اقدار کا مرکز اور محور تھا۔ پھلداروپھولدار درخت پودے اور مہکتی فضائیں اسلام آباد کی پہچان تھیں قوانین کی پاسداری میونسپل بائی لاز کا نفاذ، لا ء اینڈ آرڈر پر عمل درآمد کے لئے مثالی پولیس ، اس شہر بے مثال میں روزانہ تقریبات، مذاکرے، مباحثے، سیمینار ، ورکشاپس، بین الاقوامی تقریبات یہاں کے بڑے بڑے ہوٹلز میں منعقد ہوتیں جس سے ہر وقت چہل پہل رہتی۔ صحافیوں کے علاوہ شہری اپنی من پسند تقاریب میں شرکت کرتے، غیر ملکی مہمانوں کی آمد کی وجہ سے باہمی تعلقات مضبوط ہوتے اور ترقی کی نئی راہیں کھلتی، کشادہ سڑکیں ،سرخ ٹائلوں سے سجے فٹ پاتھ ، دلکش فوارے جہاں پانی موتیوں کی طرح گرتا، دیدہ زیب پارک، بچوںکے جھولے ، بزرگوں اور خواتین کے لئے آرام دہ بینچ جہاںبیٹھ کر وہ اپنے سماجی تعلقات میں اضافہ کرتے ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرتے ،باہر سے آنے والوں کے لئے اسلام آباد میں بسنا ایک سہانے خواب کی مانند تھا۔ جہاں ضروریات اور سہولیات ہر ایک شہری کی دسترس میں تھیں۔ مارکیٹیں ہو ہسپتال یا بازار سب میں ایک ترتیب اور سلیقہ تھا ۔ مگر اب یہ سب چیزیں قصہ پارینہ ہے پرانا اسلام آباد اب ایک خواب ہے۔ ناجائز تعمیرات اور کچی آبادیوںکی بھر مارنے اس شہر کا حسن گہنا دیا ہے۔اسلام آباد کی ہر گرین بیلٹ پر کچی آبادی کا بدنما داغ موجود ہے جن میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے کئی کئی منزلہ گھر تعمیر کئے جا رہے ہیں۔ سی ڈی اے کا عملہ بھی اس بہتی گنگا
میں ہاتھ دھو رہا ہے۔ ان بستیوں میں نہ صرف بائی لاز کی قانون شکنی ہو رہی ہے بلکہ اخلاقیات کا جنازہ بھی نکالا جا رہا ہے۔ یہاں قیام پذیر آوارہ اور بدمعاش لڑکے ٹولیوں کی صورت میں راستوں میں کھڑے ہو کر خواتین اور بچیوں کا گزرنا محال کر دیتے ہیں ۔ منشیات فروشی کی لعنت بھی یہاں موجود ہے۔ یہ تیزی سے پھیلتی ہوئی کچی آبادیاں اور ان میں پروان چڑھنے والی اخلاقی باختہ سرگرمیاں حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ جہاں یہ کچی آبادیاں ہیں وہاں اطراف کے رہنے والے شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ چوری، چکاری، ڈاکے ، مارپیٹ روز کا معمول ہے۔ ان کی تقریبات میں رات، رات بھر گانے اور ہلڑ بازی، پٹاخے ، فائرنگ کھلے عام ہوتی رہتی ہے۔ نہ کہیں داد ہے نہ فریادکیونکہ جو کبھی مثالی پولیس تھی اب اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کی آنکھوں کے سامنے دو دوریہ سڑک کو بند کرکے ،شامیانے لگا دیئے جاتے ہیں۔ پورا پورا دن روڈ بلاک کر دی جاتی ہے۔ اس طرح ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے اور شہری لمبے چکر کاٹنے پر مجبور ہوتے ہیں اس پر ہی بس نہیں ہے بلکہ پارکوں کے جنگلے کپڑے سکھانے کے کام آتے ہیں اور یوں ان کی خوبصورتی ماند پڑ جاتی ہے۔
وفاقی دارالحکومت میں آج کل آوارہ کتوں کی بہتات ہے جو ہر طرف دندناتے پھر رہے ہیں بھونکنے کے علاوہ کاٹنے سے بھی گریز نہیں کرتے ان کا زیادہ تر شکار بزرگ شہری، خواتین اور بچے ہیں۔ گئے وقتوں میں سی ڈی اے ،میونسپل ایڈمنسٹریشن میں انسداد کتا مار کا ایک شعبہ تھا۔ جس کا عملہ شہری کی شکایت پر عملدرآمد کرتا تھا۔ اور خطرناک کتوں کو مار دیا جاتا تھا۔ مگر اب صورت حال اس کے برعکس ہے ان کتوں سے بچنے کے لئے اب ہر شہری کو تربیت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جب آپ اس شعبہ میں فون کریں تو ایک ہی آواز ہے ’’اب یہ سہولت آپ کو میسر نہیں ہے،،اس سے زیادہ واضح جواب کی آپ توقع نہ کریں۔ صاف ستھری اور سلیقے سے سجی سنوری مارکیٹیں اب خالی
خالی ہی رہ گئیں ہیں۔ تہہ بازاری نے ان کے حسن کو غارت کر دیا ہے۔ دکانداروں نے اپنی آمدنی میں اضافے کے لئے گاہکوں کے گزرنے والی فٹ پاتھوں پر، تھڑے، ریڑھیاں اور چھوٹے چھوٹے سٹال لگا دیئے ہیں اور ان سے ہزاروں ماہانہ کارکرایہ وصول کرتے ہیں پہلے ان کا کوئی تصور نہیں تھا کیونکہ میونسپل ایڈمنسٹریشن کا ڈائریکٹر بذات خود ان مارکیٹوں کا دورہ کرتا تھا اور موقع پر ہی جرمانہ کیا جاتا تھا۔ اب فرق صرف اتنا ہے کہ عملہ آتا ہے مگر مخبری اور سازباز کے بعد۔ اور پھر رسمی کارروائی رہ جاتی ہے جو خانہ پری کے لئے کافی ہوتی ہے کیا یہ وہی پرانا اسلام آباد دلکش اور وسیع سرکاری عمارتوں میں براجمان بے پناہ اختیارات کے مالک ایک نکاتی ایجنڈے پر مصروف عمل ہیں۔ ان کے علاوہ سب چور اور ڈاکو ہیںتمام خرابیوں کے ذمہ دار، موجودہ دور کی مہنگائی اور اداروں کی ناقص کارکردگی کے بھی یہی قصور وار ہیں اور یہ بات انہیں باور کرانے کے لئے ایسے۔ ایسے القابات اور الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں جو ڈکشنری میںبھی دستیاب نہیں ہیں نئے پاکستان میں تو لوگ ترقی کے خواب دیکھ رہے تھے وفاقی دارالحکومت کی بے مثال دلکشی کو بحال ہو تادیکھ رہے تھے انہیں انتظامی معاملات سدھرنے کی امید تھی مگر یہاں تو اخلاقیات کا بھی جنازہ نکل گیا ۔ نان شبینہ کو محتاج عوام حیرت سے انگشت بدنداں ہیں کہ اس مسئلے سے کیسے نجات پائیں نئے خواب سجانے کے لئے پرانی خوشنما تعبیر سے بھی گئے۔ اب ان کی حالت کچھ ایسی ہے ,,نہ ہی خدا ملا نہ وصال صنم ،،