پہلی اور آخری وارننگ
قومی کرکٹ ٹیم آج کل نیوزی لینڈ کے دورے پر ہے اور کورونا وائرس کی وباء کے باعث مقامی طور پر وضع کردہ ایس اوپیز، آئی سی سی کی گائیڈ لائنز اور اصول و ضوابط پر عمل پیرا کو ویڈ 19- ٹیسٹس مراحل سے گزر رہی ہے۔ دورے کے ابتداء ہی میں اسکواڈ کے اہم رکن قومی کرکٹر شاہین شاہ آفریدی کو صدمہ ہوا جب انہیں اطلاع ملی کہکافی عرصے سے علیل ان کے والد اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔ خدا وند تعالیٰ مرحوم کی مغفرت کرے (آمین)۔ 54افراد پر مشتمل قومی اسکواڈ نیوزی لینڈ آمد کے بعد آکلینڈ سے کرائسٹ چرچ پہنچا اور لنکن یونیورسٹی کے علاقے میں ڈیرے ڈالے جہاںمقامی حکومت کی جانب سے وضع کردہ ایس او پیز کے تحت پورے اسکواڈ کو 3روز تک الگ الگ کمروں تک محدود رکھتے ہوئے کورونا ٹیسٹ کیلئے سیمپل بھی لیے گئے جس کے نتیجے میں غیر متوقع 6 ٹیسٹ مثبت آ گئے ۔ متاثرہ افراد کوباقی اسکواڈ سے الگ قرنطینہ میں منتقل کردیا گیا،اب تمام کھلاڑیوں کی 4بار ٹیسٹنگ ہوگی۔ ٹیسٹ کے نتائج مہمان اسکواڈ کیلئے مایوس کن ہیں لیکن اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کی روک تھام کے لئے نیوزی لینڈ میں حکومت کی جانب سے بنایا جانے والا سسٹم کس طرح موثر انداز میں کام کررہا ہے،ان کا عزم ہے کہ ہم ملک میں انٹرنیشنل مقابلوں کا انعقاد چاہتے ہیں لیکن عوام کی صحت و سلامتی مقدم ہے جسے یقینی بنانے کیلئے اپنی وزرات صحت سے ہر ممکن تعاون جاری رکھیں گے۔نیوزی لینڈ میں قرنطینہ کرنے والی پاکستانی ٹیم میں 6کورونا کیسز سامنے نے کے بعد صورتحال نے نیا موڑ لے لیا ہے ۔ مہمان کرکٹرز کی کڑی نگرانی کی جانے لگی ہے اور اس رویے کو قومی کرکٹرز نے جیل سے تشبیہ دے دی ہے دوسری جانب سے وائرس کا پھیلائو روکنے کیلئے پروٹوکولز کی خلاف ورزی کے الزامات نے بھی کھلبلی مچا دی۔ایس اوپیزکو نظر انداز کیئے
جانے کے کم از کم2واقعات نیوزی لینڈ پہنچنے کے ابتدائی12گھنٹوں کے دوران ہی سامنے آ گئے، کمروں میں کھانا پیش کیا گیا تو ٹرے وصول کرتے وقت کئی کرکٹرز نے چہروں پر ماسک نہیں لگائے ہوئے تھے، بعد ازاں ان میں سے چند ایک نے اپنے کمروں کے دروازے کھول کر ایک دوسرے سے گفتگو شروع کر دی جو سی سی ٹی وی کیمروں نے ریکارڈ بھی کرلی۔انہی خلاف ورزیوں نے وہاں کی حکومت کو سخت اقدامات پر مجبور کر دیا۔ کیوی بورڈ اور حکومت کے نمائندوں کو جمعرات 26نومبر کی صبح پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان سے رابطہ کر نا پڑا اور اس حساس معاملے پر تفصیلی بات چیت میں تحفظات کا اظہار کیا۔نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ سے گفت و شنید کے بعد پی سی بی کے چیف ایگزیکٹو وسیم خان نے قومی شاہینوں کو خبردار کیا ہے کورونا سے متعلق گائیڈ لائنز پر عمل نہیں کیا گیا تو ٹیم کو واپس بھیج دیا جائے گا۔ انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا ،’’ مجھے نیوزی لینڈ کرکٹ اور نیوزی لینڈ کی حکومت سے پیغام ملا ہے کہ کرکٹ نیوزی لینڈ کی زیرو ٹالرنس پالیسی ہے اورمزید کسی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، انہوں نے ہمیں پہلی اور آخری وارننگ دی ہے۔ ایک اور بار خلاف ورزی ہوئی تو پوری ٹیم کو سیدھا واپس بھیج دیں گے۔میں جانتا ہوں کہ یہ مشکل وقت ہے اور آپ کیلئے آسان نہیں ہے، انگلینڈ میں بھی اسی طرح کے حالات میں رہے اور کھیلے ا اور یہ ملک کی عزت و وقار کی بات ہے۔ ٹیم کو نیوزی لینڈ سے واپس بھیج دیا گیاتو بے عزتی والی بات ہوگی۔پاکستانی ٹیم میں 6کورونا کیسز سامنے آنے پر’ جتنے منہ اتنی باتیں‘ کے مصداق یہ کہا جا رہا ہے کہ قومی ٹیم کو کمرشل پرواز کے ذریعے لاہور سے نیوزی لینڈ بھیجنا غلط فیصلہ تھا۔ ایئر پورٹس اور دوران سفر کئی مقامات پر عوام سے سامنا ہوا، جہاز کے اندر بھی تمام کھلاڑی آپس میں ملتے جلتے رہے، انھوں نے ایس اوپیز کی خلاف ورزیاں بھی کیں۔قبل ازیں دورئہ انگلینڈ کیلئے اسکواڈ کی کورونا کلیئرنس کے بعد چارٹرڈ طیارے سے روانگی ہوئی جس کے اخراجات بھی میزبان کرکٹ بورڈ نے برداشت کیئے تھے لیکن اس بار تمام کھلاڑی اور معاون اسٹاف ارکان کمرشل پرواز کے ذریعے اڑان بھرنے کے بعد دبئی آئے، وہ مختصر قیام کے بعد براستہ کوالالمپور پہلے آکلینڈ اور پھر کرائسٹ چرچ پہنچے، اس دوران کہیں نہ کہیں سے وائرس کی زد میں آگئے۔مانا کہ دورے کے دوران کوتاہیاں ہوگئیںجس کی بنا پر قومی کرکٹ ٹیم کو وارننگ دے کر ہتک کی گئی ہے ۔ کیوی حکام کی وارننگ شاید پہلی اور آخری وارننگ تصور کیا جانا چاہیئے کیونکہ ان کے ملک اور وہاں کے عوام کا اپنے ملک اور قوم سے موازنہ کیا جائے تو بہت فرق پایا جاتا ہے ۔ اس کڑے ماحول اور ایس او پیز کا نتیجہ ہی ہے کہ26نومبر 2020کو 50لاکھ نفوس پر مشتمل نیوزی لینڈکورونا وائرس کی وباء سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں مجموعی طور پر 25اموات اور2040 کیسز کیساتھ162ویں نمبر ہے اور کیوی حکومت اور بورڈ کے سخت مئوقف کی تائید کی جانی چاہیئے اگرچہ ٹیم کے مذکورہ رویے پر سابق کرکٹرز اور شائقین کرکٹرز ناخوش ہیں اور تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔بہر حال ہمارے ملک سمیت دنیا بھر میں کورونا وائرس وباء کی صورتحال تشویش ناک ہے اور وباء کی دوسری لہر سے بہت زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے ۔ کورونا وباکا اندازہ ورلڈو میٹر پر کورونا وائرس کے اعداد و شمار اورگرافس سے بخوبی ہوتا ہے کہ گزشتہ عرصے کی نسبت آج کل خطرناک صورت حال کا سامنا ہے۔ یہ صورتحال بتدریج روز بروز بگڑ رہی ہے کیونکہ بیشتر ممالک میں لاک ڈائون ختم کر دیا گیا ہے اور وائرس کے با وجود تمام تر معمولات جاری و ساری ہیں۔ پاکستان میں بھی یہی حال ہے حکومت کسی طور مکمل لاک ڈائون کی خواہاں نہیں اور لاک ڈاون کس حد تک موئثر ہے یا نہیں، کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ ٹرانسپورٹ، مارکیٹس، بازار ،شاپنگ پلازہ، عبادت گاہیں ، پارکس کھلے ہوئے ہیں دوسری جانب ’’کوئی مرے یا جئے‘‘ اپوزیشن لیڈرز کورونا کے خطرات کو بالائے طاق رکھ کر جلسے جلوس کر رہی ہے ریلیاں نکال رہی ہے ۔وہ اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔ حکومت ابتداء میں کئے گئے لاک ڈائون کا ازالہ کر رہی ہے اور وہ کسی صورت معاشی و کاروباری سر گرمیوں کو روک کر نقصان برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ حکمران ہوں یا اپوزیشن لیڈرز انہیں کسی وارننگ کی پرواہ نہیں، انہیں عوام کی صحت و تندرستی کی فکر نہیں،جو کہ قومی المیہ ہے۔