پی ڈی ایم کا جلسہ اورکرونا کی وباء
جمہوریت میں جلسے جلوس ،احتجاج ،سمینارز ،بحث ومباحثے ملک وقوم کے عظیم ترمفاد کیلئے تو ہونے چاہئیں ۔حکومت من مرضی کرتے ہوئے ہٹ دھرمی پر قائم ہو ۔ ملک کی سا لمیت کو خطرہ ہو عوام مشکلات کا شکار ہوکر بھوک افلاس میں مبتلا ہورہے ہوں اورعوامی بے چینی بڑھ کرخود کشیوں پرمجبور ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کا خطرہ ہو ،روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم یافتہ نوجوان مایوسی جیسی وباء میں اضافہ ہورہاہو تو اپوزیشن جماعتیں عوامی بھلائی کیلئے احتجاج تحریک کا آغاز کرتے ہیں۔جمہوری دور میں سب سے پہلے اپوزیشن کے منتخب نمائندوں کا فورم قومی وصوبائی اسمبلی اور سینٹ ہوتا ہے اور ایسی جماعتیں جن کا کوئی بھی ممبر اسمبلی میں نہ ہو وہ سیمینارز ،جلسے ،جلوس ،احتجاجی مظاہرے ،بھوک ہڑتالیں کرتے ہیں اور سب کچھ باکردار ،صاف شفاف کردار کے حامل لوگ جن کے ہاتھ کرپشن سے بالکل پاک صاف ہوں وہ عوام کے درد ، ملک وقوم کی بھلائی کیلئے اور ملکی سلامتی کو خطرے کے باعث میدان میں آتے ہیں۔اس وقت پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت تو ہے مگر مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی شریک اقتدار ہیں۔سندھ جیسے اہم ترین صوبہ جہاں بندرگاہ ہے اور ذرخیز زمین اور صنعتی اداروں کی خاصی تعداد ہے۔اس صوبہ میں پی پی پی کی بلاشرکت غیر ے حکومت ہے۔اسی طرح آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے جبکہ پنجاب میں اکثریتی پارٹی ہے ۔اگر پی ٹی آئی سے مسلم لیگ (ق) الگ ہو جائے تو پھر اقتدار (ن)لیگ کے پاس ہی ہوگا۔یہ دوسری بات ہوگی کہ (ن)لیگ کے ممبران اسمبلی شہبازشریف کے رویہ سے نالاں ہیں ۔اس وقت ملکی معیشت کی بہتری اور کرشنگ سیزن شروع ہونے پر چینی سمیت اشیاء خوردونوش کی قیمتیں کم ہونے کی نوید سنائی جارہی ہے۔جبکہ دوسری طرف سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے جلسے زور وں پر ہیں۔22نومبر کے جلسے کے دوران میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی والدہ محترمہ بیگم شمیم اختر کا لندن میں انتقال ہوگیا تو مریم نواز شریف کوان کی دادی کی وفات کی خبر دی گئی جس پر مریم نوازشریف نے تقریر ختم کرنے کا اعلان کردیا ۔اس دوران جلسوں میں شریک لوگوں کے عزیزواقارب کی فوتیدگیاں بھی ہوئی ہوں گی ۔ممکن ہے کئی لوگوں کواطلاع بھی نہ ہوسکی ہو۔پھر کورونا جیسی موذی وباء جو عالمی سطح پر انسانی جانوں کیلئے خطرہ بن چکی ہے اور دنیا بھرکی طرح پاکستان میںبھی کورونا سے متاثر افراد موت کے منہ میں آرہے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد دن بدن خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے ۔حکومتی سطح پر ویکسین کی دستیابی بارے کوششوں کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیرکی بھی تاکید کی جارہی ہیں ۔سکولوں ،کالجوں ،یونیورسٹیوں میں چھٹیوں کا اعلان ہوچکا ہے ۔علاج معالجہ بارے بھی آگاہی دی جارہی ہے ،اس دوران سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری کی منگنی کی بھی دھوم دھام سے گزشتہ کئی دنوں سے تیاری ہورہی ہے۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے منگنی کے شرکاء کیلئے کرونا ٹیسٹ رپورٹ لازمی قرار دے دی گئی ہے ۔ظاہر ہے کہ منگنی میں دونوں اطراف سے شرکاء عام طبقے سے تو نہیں نہ ہی پی پی پی کے کارکنان اور عام عہدیداران ہیں ۔منگنی تو فیملی فنگشن ہوتا ہے اس کے لئے تو کورونا ٹیسٹ اور صحت مند ہونے کا سر ٹیفکیٹ لازمی قراردے دیاگیاہے جبکہ حکومت گرانے ،احتساب سے بچنے کیلئے شدید اور فطری مخالفوں کو بھی کرپشن میں ہمنوا سمجھتے ہوئے PDMکے جلسے میں لوگوں کو شامل ہونے کے لئے کورونا جیسی وباء سے محفوظ رہنے اور نہ ہی سر ٹیفکیٹ لانے کی شرط رکھی گئی ہے۔یعنی عام انسانوں کی زندگی اور موت سے ان کوکوئی سروکار نہیں ہے۔اسمبلیوں میں ہونے کے باوجود اسمبلیوں میں عوامی مسائل پر بحث نہیں کی جاتی،باہر ہنگامہ آرائی زوروں پر ہے عوامی مسائل ومشکلات بارے تو بات ہی نہیں کی جاتی ،بس حکومت گرانے اور اقتدار حاصل کرنے پرزور ہے تاکہ اقتدار حاصل کرکے احتساب سے بچا جاسکے ۔ذکر ہورہاتھا PDMکے جلسوں بارے تو غریب عوام کو سوچنا چاہئے کہ کیا سابقہ حکمرانوں نے اپنے اپنے ادوار میں عام ،غریب آدمی کو کیا سہولیات دیں۔بینکوں سے غریب اور خالی ہاتھ لوگوں کو قرض مل جاتا تھا؟ سرکاری ملازمتیںاداروں کی ضرورت ہوتی ہیں۔کیا کسی عام آدمی کو بغیر سفارش نوکری ملی ہے ،آج نہیں مل رہی تو شور کرنے والے عوام کے نام نہاد خیر خواہوں کے دور میں بھی یہی سسٹم تھا۔وزیراعلیٰ ، وزیراعظم اور وزراء اس وقت بھی آسمانی مخلوق بنے ہوئے تھے ۔پی پی پی نے بھی موروثی سیاست کو پروان چڑھایا اور مسلم لیگ(ن) نے بھی اپنے ہی خاندان کی سیاسی طور پر آبیاری کی ہے۔ اوپر کی سطور میں ذکر کیا جاچکا ہے کہ اقتدار کے حصول اوراپنی اپنی کرپشن لوٹ مار کوبچانے کیلئے بڑی پارٹیاں چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو اپنی اپنی دولت سے کچھ حصہ دے کر جلسے جلوسوں میں شامل کررہے ہیں۔ممکن ہے جب یہ تحریر شائع ہو اس وقت پی ڈی ایم ملتان کے جلسے بارے کوئی فیصلہ ہوچکا ہو جو30نومبر کو ہونے جا رہاہے۔کورونا وائرس جو عالمی موذی وباء ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ضروری ہے کہ اپوزیشن اسمبلیوں میں اپنے مطالبات بارے آواز اٹھائے۔کیونکہ جب اسمبلی موجود ہو تو اس فورم کو چھوڑ کر ہٹ دھرمی کرنا’’ دال میں کچھ کالا ‘‘ضرور ہے اور منتخب نمائندوں کی حیثیت کو نظرانداز کرنے کے مترادف بھی ہے ۔ان سیاسی پارٹیوں کواپنے منتخب نمائندوں کو’’ عزت دو ‘‘ پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘جبکہ ووٹرز کے منتخب نمائندوں کو خود عزت نہیں دے رہے۔ان کی موجودگی میں اسمبلیوں کی بجائے چوکوں چوراہوں پر عوام کا مزید استحصال کررہے ہیں اوران کی زندگیوں کو خطرات میں ڈال رہے ہیں۔