
جب انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے سٹاپ سے اورنج ٹرین میں پہلی بار سفر کرنے کا موقع ملا تو پلیٹ فارم میں داخل ہونے کے لئے سب سے پہلے ماسک پہننے کی ہدایت کی جاتی ہے اور پھر اس خوبصورت اسٹیشن اور بہترین عالیشان اورنج ٹرین کے اندر ٹھوکر نیازبیک جانے کے لیے داخل ہوئے تو یقین جانے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے پاکستان میں نہیں کسی باہر کے ملک میں آگئے ہیں اس مختصر سفر میں یقین جانے دل سے اس شخص کے لیے دعائیں نکلتی رہی جس نے اس منصوبہ کو ترتیب دیا اور پھر اس پر دل جمی سے شب روز انتہائی محنت کر کے اسے بنوایا جبکہ اس سے قبل سفر کرنے والے یہ لوگ جو ریلوے اسٹیشن سے ٹھوکرنیازبیک سٹاپ پر ڈیڑھ گھنٹے میں سفر کرنے پر مجبور تھے آج یہ اورنج ٹرین صرف 35 منٹ میں اسٹیشن سے ٹھوکر نیاز بیگ سٹاپ پر پہنچ رہی ہے اس بہترین کاوش پر پنجاب کے سابق وزیر اعلی میاں شہباز شریف کو سیلوٹ پیش کرتے ہیں. اس کے بعد فیصل آباد جانے کے لیے براستہ بھائی پھیرو کا انتخاب اس لیے کیا کہ وہاں پر بھائی پھیرو الرحمت ہوٹل بائی پاس خان کے موڑ پر لاہور مہرینہ بوٹ کلب کے مالک ہمایوں بٹ کی جانب سے ایک پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں ہمرا مقامی سینئر صحافی و ممتاز کالم نگار حاجی ڈاکٹر لیاقت علی نے شرکت کی لاہور مہرینہ بوٹ کلب ہیڈ بلوکی میں دریائے راوی کے کنارے پر واقع تھی۔
ہمایوں بٹ کی جانب سے اپنی مدد آپ کے تحت کروڑوں روپے مالیت کی بلڈنگ جو بنائی گئی تھی اور ساتھ ہی خوبصورت گلاسی پلاٹوں کو بنایا گیا تھا اسے مسمار کرکے اس سیاحتی مرکز کو ختم کردیا گیا ۔ اسکے بعد بھائی پھیرو سے فیصل آباد کے لیے روانہ ہوئے مذکورہ روڈ کے اوپر چڑھتے ہی محسوس ہوا کہ جیسے یہ سڑک پاکستان کے حصہ سے باہر ہے کیونکہ جس سڑک کے اوپر سے ٹریفک گزرتی ہے وہاں پر سڑک کا کوئی نام و نشان نہ ہے اس سڑک کا تمام حصہ ہیڈ بلوکی تک بڑے بڑے کھنڈرات کا نمونہ پیش کرتا ہے جس کے باعث روڈ پر ٹریفک کا کئی کئی گھنٹے بند ہونا ایک معمول کا حصہ ہے مذکورہ سڑک کے اوپر سے پی ٹی آئی کے ممبر قومی اسمبلی سردار طالب حسن نکئی جو اسی حلقہ سے ایم این اے منتخب ہوئے ہیں اسی کھنڈراتی سڑک سے گزر کر اپنے گاؤں جاتے اور آتے رہتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسی سڑک کے اوپر محکمہ انہار کا ایک خوبصورت ریسٹ ہاؤس اور دس مربع رقبہ پر بنایا جانے والا معروف سفاری پارک ہیڈ بلوکی پر موجود ہے یہ جگہ فلم انڈسٹری اور ٹیلی ویژن کے ڈراموں کی ریکارڈنگ کے لیے یہاں کے مناظر بہترین موضوع ہیں۔اسکے بعد فیصل آباد کے بائی پاس پر واقع ایک قصبہ مکوانہ پریس کلب میں ہماری ملاقات وہاں کے مقامی صحافیوں ملک اسلم ایاز , علی رضا , نعمان بھٹی , رانا الیاس , محمد شفیق, نادر علی سندھو اور ظفر اقبال سے ہوئی اللہ پاک ان تمام صحافیوں کو نظر بد سے بچائے کیونکہ وہاں پر یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی کہ پورے پنجاب میں یہ واحد پریس کلب ہے جو ایک ہی ہے اس کے مقابلے میں کوئی اور پریس کلب نہ ہے اور سب ایک جان ہو کر اپنے اپنے کام سے وابستہ ہیں۔ یہ لوگ تیار ہو کر نواحی گاؤں جامیانہ وسیر میں نیزہ بازی کے مقابلے کی کوریج کے لیے میرا انتظار کر رہے تھے سو ہم بھی ان کے ساتھ چل پڑے گاڑی جس سڑک سے گزر رہی تھی اس سڑک کا حال کچھ اس طرح سے تھا کہ اس سڑک پر ٹھیکیدار پتھر اور مٹی ڈال کر فرار ہوگیا ہے اس سڑک پر دھول اڑ رہی ہے ٹریفک کا گزرنا تو مشکل ہے ہی اس سڑک کے آس پاس میں بیٹھے ہوئے دکاندار بھی اس دھول سے شدید متاثر ہو رہے ہیں بتایا جاتا ہے کہ اس سڑک کا 21 کلومیٹر کا ایریا اسی حالت میں ہی ہے ٹیلی فون ایکسچینج تک عرصہ دراز سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا دکھ کی بات یہ ہے کہ اس کا مرمتی کام شروع ہوتے ہی رک گیا کیونکہ ٹھیکیدار پتھر اور مٹی ڈال کر مشینری سمیت فرار ہو گیا بہرحال مطلوبہ گاؤں میں نیزہ بازی کا مقابلہ دیکھتے ہوئے بہت مزا آیا یہ نیزہ بازی پنجاب کا ثقافتی کھیل ہے نیزہ بازی کا شمار پنجاب کے مقبول ترین ثقافتی کھیلوں میں ہوتا ہے گھڑ سواری کے شائقین نے اس قدیم ثقافتی و روایتی کھیل کو زندہ رکھا ہوا ہے مختلف دیہاتوں میں میلوں اور بزرگان کے عرس اس کے موقع پر نیزہ بازی کے مقابلے منعقد ہوتے رہتے ہیں جن کو دیکھنے کے لئے لوگ بڑے شوق سے دور دراز کے علاقوں سے اس مقابلے کی جانب رخ کرتے ہیں اس میلہ کی خاص بات یہ ہے کہ جس شخص نے یہ میلہ لگوایا تھا اس نے اپنے شوق کی خاطر اپنی دو ایکڑ زمین کو فروخت کر کے تمام تر اٹھنے والے اخراجات کا بوجھ اٹھایااگلی صبح فیصل آباد کے ایف ڈی اے ڈیپارٹمنٹ سے ذاتی پراپرٹی کا ریکارڈ حاصل کرنا تھا اسے حاصل کرنے کے لیے اس بات کا تجربہ ہوا کہ دنیا میں اگر کوئی مشکل ترین کام ہے تو وہ کسی سے کام لینا ہے اور پھر آج کل نفسا نفسی کے دور میں یہ کام اور بھی مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔
٭…٭…٭