وفاقی وزیر حماد اظہر کہتے ہیں کہ بجلی کی قیمتیں بڑھانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو بڑھائیں گے۔ وزیر موصوف کا بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ملک میں مزید مہنگائی کے خواہشمند ہیں۔ حماد اظہر ملک کا وزیراعظم بننے کی خواہش بھی رکھتے ہیں اگر وہ یہ بڑی خواہش رکھتے ہیں تو انہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس وقت تک لوگوں کو زندہ بھی رہنے دیں عوام پر اتنا بوجھ ڈالیں کہ اگر مستقبل میں حماد اظہر وزیراعظم بنیں تو ملک میں زندہ اور خوشحال لوگ تو موجود ہوں۔ اگر حماد اظہر دھڑلے سے ضرورت پڑنے پر بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کی بری عوام تک پہنچا رہے ہیں شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے مجموعی طور پر عام آدمی پر کتنا بوجھ پڑتا ہے۔ ایسے مسلسل اضافوں کی وجہ سے ہی آج اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ حکومت یہی نہیں سمجھ سکی کہ جب تک لاگت میں کمی نہیں لائی جائے گی اس وقت تک مہنگائی میں کمی ممکن نہیں ہے۔ وزراء مسلسل مہنگائی کو مصنوعی قرار دے کر خود بری الذمہ سمجھتے ہیں جب کہ حقیقت کچھ اور ہے۔ مصنوعی مہنگائی بھی حکومت کی انتظامی معاملات پر گرفت نہ ہونے کی وجہ سے ہے اس کے باوجود مصنوعی مہنگائی کا حصہ کم ہے حقیقت میں ہونے والی مہنگائی مجموعی طور پر اشیائے خوردونوش کی لاگت میں اضافے، ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کی وجہ سے قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس اہم ترین معاملے کو مکمل طور پر نظر انداز کیا اور نتیجتاً سبزیاں، پھل، دالیں، دودھ، دہی، ادویات، چینی گھی، آٹا اور ادویات سمیت ہر چیز کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اب اگر حکومت بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرے گی تو عام آدمی کے لیے زندگی مزید مشکل ہو جائے گی۔ مہنگائی میں مسلسل اضافے کے ساتھ ساتھ حکومت عام آدمی کی آمدن کو بڑھانے کے لیے اقدامات کرنے میں بھی مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ اگر آمدن اور اخراجات میں توازن رہے، عام آدمی کی قوت خرید بہتر رہے معاملات قابو میں رہ سکتے ہیں لیکن قوت خرید میں اضافہ نہ ہونا مسلسل مہنگائی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ شاید وفاقی وزیر حماد اظہر اس حقیقت اور اس نظام سے بھی بیخبر ہیں چونکہ ان کے لیے آٹا، چینی، ادویات، سبزیاں، پھل اور گوشت خریدتے وقت کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اس لیے پاکستان تحریکِ انصاف کے دیگر معاشی جادوگروں کی طرح حماد اظہر کے نزدیک بھی مہنگائی زیادہ اہم مسئلہ نہیں ہے۔
پاکستان سٹیل ملز کے برطرف ملازمین نے سٹیل ٹاؤن چوک پر ٹائر جلاکر احتجاجی مظاہرہ کیا اور نیشنل ہائی وے پر دھرنا بھی دیا ہے۔ حکومت نے پاکستان سٹیل ملز کے چار ہزار پانس سو چوالیس ملازمین کو برطرف کر دیا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف اداروں کو مضبوط بنانے اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کے وعدے کے ساتھ حکومت میں آئی تھی لیکن اس کے برعکس مسلسل ملازمتیں ختم کی جا رہی ہیں۔ لوگوں کو بے روزگار کیا جا رہا ہے اداروں کو مضبوط کرنے کے نام پر یا اصلاحات کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس وجہ سے عوامی سطح پر بیچینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بیروزگاری بڑھنے سے غربت بڑھے گی، نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہو گا، جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہو گا۔ یوں اگر ایک طرف سے اصلاح کا پہلو نکالنے کی کوشش کی بھی جائے گی(ویسے اس مصنوعی اصلاح پر یقین کون کرے) تو اصلاح کے نام پر معاشرے میں ہونے والی تباہی کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے۔ اداروں میں اصلاحات کے نام پر ہونے والی بیروزگاری سے ہونے والے نقصان کا ذمہ دار کون ہو گا۔ ایسا تو ممکن نہیں کہ ساڑھے چار ہزار سے زائد افراد سب کے سب ہی نالائق و نکمے تھے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ ہر ادارے میں غیر ضروری بھرتیاں ہوں، کچھ سفارشی بھرتی ہوئے ہوں، کچھ نالائق بھی ہوں گے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ سب کو ایک ہی چھری سے کاٹ دیا
جائے۔ حکومت عوام کو کسی ایک جگہ سے تو سہولت فراہم کر دے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ لوگ حکومتی فیصلوں کے خلاف سڑکوں پر ہے چند ہفتے قبل بھی سرکاری ملازمین نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دیا تھا۔ گذشتہ ماہ حکومت نے ریڈیو پاکستان کے لگ بھگ ساڑھے سات سو ملازمین کو فارغ کر دیا تھا۔ ان بے روزگاروں کے مسائل کون حل کرے گا۔ ہر ماہ سینکڑوں افراد کی ملازمتوں سے برطرف کیا جائے گا تو یقیناً یہ سب بیروزگار اکٹھے ہو کر حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل سکتے ہیں۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنث ان لوگوں کو استعمال کر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ خبر بھی ہے کہ لاہور میں میٹرو بس سروس کے ملازمین بھی تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر بس سروس روک دی ہے۔ تین ماہ سے میٹرو بس سروس کے ساٹف کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہوئی اس وجہ سے سٹاف نے کام چھوڑ دیا۔ اس سے پہلے راولپنڈی میں میٹرو سروس سٹاف نے بھی تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر ہڑتال کر دی تھی۔ ایک طرف حکومت معیشت میں بہتری کی خبریں سنا رہی ہے تو دوسری طرف ملازمین کو فارغ کیا جا رہا ہے کہیں تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا مسئلہ ہے۔ معیشت کی بہتری کے اعدادوشمار، فیصل آباد میں مزدوروں کی قلت، سیمنٹ فیکٹریوں کی طرف سے آرڈرز پورے نہ ہونے کی حقیقت تو عوام تک نہیں پہنچ سکتی لیکن بیروزگار ہونے والے ہزاروں افراد اور جنہیں تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں ان کے احتجاج اور مظاہرے سب دیکھ رہے ہیں۔ حکومت اپنی مزدور کش پالیسیوں پر نظر ثانی کرے۔ ہزاروں نوکریاں ختم ہونے سے صرف ایک شخص متاثر نہیں ہوتا بلکہ سارا خاندان متاثر ہوتا ہے۔ سٹیل مل ملازمین کی برطرفی پر بھی وفاقی وزیر حماد اظہر نے واجبات کے حوالے سے بیان جاری فرمایا ہے سٹیل ٹاؤن میں ہونے والا مظاہرہ ان کے بیان کا منہ چڑا رہا ہے۔ یہ صورتحال اور بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے جب عوام کا وزراء پر اعتماد ختم ہو جائے وہ حکومت کے بیانات کو عیر سنجیدہ سمجھنا شروع کر دیں اور ان کی کوئی اہمیت باقی نہ رہے۔ حکومت لاکھ دعوے کرتی رہے لیکن جب تک بہتر ہوتی معیشت اور تمام مثبت اشاریوں کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچیں گے اس وقت تک بہتری ممکن نہیں ہے۔ ریاستی اداروں میں غیر ضروری بھرتیوں کے حوالے سے غیر جانبدار فیصلے کیے جائیں، اداروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے بھی اقدامات ضروری ہیں۔ بھرتی کیے گئے افراد سے کام بھی تو لیا جا سکتا ہے یا پھر انہیں کام ہر بھی تو لگایا جا سکتا ہے جو کام کرنے والا ہو گا وہ بچ جائے گا جو کام چور ہو گا وہ بھاگ جائے گا یا پھر کام کرنے کی عادت کو اپنا لے گا۔
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے جلسوں کی وجہ سے حکومت اور اپوزیشن جماعتیں آمنے سامنے ہیں۔ پی ڈی ایم جلسوں پر بضد ہے کرونا مریضوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے حکومت نہیں چاہتی کہ جلسوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے لیکن حزب اختلاف کی جماعتیں کسی صورت جلسوں کو ملتوی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حکومت اگر جلسوں کی اجازت نہیں دیتی تو پھر اسے ہر حال میں ہر طریقے سے اپنی رٹ قائم کرنی چاہئے اگر حکومت فیصلہ کرتی ہے کہ جلسہ نہیں ہونا تو پھر اس فیصلے ہر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ بنیادی طور پر جمہوری طریقہ اختیار کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں سے بات چیت کے ذریعے یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے اگر یہ کوشش کامیاب نہیں ہوتی تو پھر حکومت طاقت استعمال کرتے ہوئے اپنی رٹ قائم کرے۔
وزیر داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کہتے ہیں کہ "میاں نواز شریف اپنی والدہ کو دفنانے نہیں آئے وہ ہمارے کہنے پر کیسے آئیں گے"۔ یعنی حکومت تسلیم کر رہی ہے کہ میاں نواز شریف کو واپس لانا ان کے بس میں نہیں ہے اگر یہی حقیقت ہے تو پھر اس لاحاصل بیان بیازی پر قوم کا وقت اور سرمایہ کیوں ضائع کیا جا رہا ہے۔ جتنا وقت حکومت کے نمائندے میاں نواز شریف اور ان کے خاندان پر روزانہ خرچ کرتے ہیں اگر یہی وقت عام آدمی کے مسائل حل کرنے پر خرچ ہو تو یقیناً بہتری ہو سکتی ہے۔ میاں نواز شریف واپس کو کیوں نہیں لایا جا سکتا یہ تو حکومت کو انہیں بھیجنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024