اتوار ‘ 13؍ ربیع الثانی ‘ 1442ھ‘ 29؍ نومبر 2020ء

آصفہ زرداری ملتان میں پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب کریں گی
لیجئے بے نظیر کی بیٹی آصف زرداری کی دختر نیک اختر کی بھی سیاست میں انٹری ہو رہی ہے۔کافی عرصہ سے اطلاع تھی کہ انہیں سیاسی جدوجہد کیلئے تیار کیا جارہا ہے مگر جب ان کی جگہ بلاول زرداری میدان سیاست میں آئے تو لوگوں کے ذہنوں سے ان کی یاد فراموش ہونے لگی۔ مگر اب ایک ایسے وقت جب سیاسی گرما گرمی عروج پر ہے ‘ ملتان جلسہ ایک ہاٹ ایشو بن گیا ہے۔اس روز یعنی کل 30 نومبر کو پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس بھی ہے۔ اپوزیشن والے ہر قیمت پر یہ جلسہ کرنے اور حکمران اسے کسی بھی قیمت پر روکنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اس ہنگامہ خیز جلسہ میں پیپلزپارٹی والوں نے نہایت سوچ سمجھ کر آصفہ زرداری کی انٹری کا فیصلہ کیا ہے۔پی پی والے پہلے ہی شو میں انہیں ایک انقلابی بناکر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ دیکھتے ہیں یہ شو کتنا کامیاب ہوتا ہے۔ سیاست میں وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ بروقت جو کام ہو‘ اس کا اثر بھی جلد ظاہر ہوتا ہے۔ ملتان کے ہنگامہ خیز جلسے میں آصفہ زرداری کی آمد اور تقریر خواہ ممکن نہ ہو سکے مگر عوام کا ہجوم انکے گرمجوش استقبال سے ان کی سیاسی جدوجہد کی راہ ضرور متعین کردیگا۔ دیکھنا ہے وہ دوسری بے نظیر ثابت ہوتی ہیں یا نہیں‘ اس کا فیصلہ انکی سیاسی استقامت سے ہی ہو پائے گا۔ مگر فی الحال وہ ملتان کی انتظامیہ کی نیند اڑانے میں ضرور کامیاب ہو سکتی ہیں جو پہلے ہی بہت دباؤ میں ہے۔ اب اگر وہ دھماکہ خیز انٹری ڈالنے میں کامیاب ہوگئیں تو پھر بلاول بھائی کا کیا بنے گا۔ پیپلز پارٹی میں کبھی ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہیں۔ بے نظیر بھٹو اور انکے بھائی مرتضیٰ کے تعلقات اس بات کے گواہ ہے۔
٭٭……٭٭
چرواہے کے بیٹے کو مہران یونیورسٹی میں سکالر شپ پر داخلہ مل گیا
دل کی لگن سچی ہو تو منزل خودبخود قریب آ ہی جاتی ہے کہتے ہیں ناں…؎
اے جذبہ دل گر میں چاہوں
ہر چیز مقابل آجائے
منزل کیلئے دوگام چلوں
اور سامنے منزل آجائے
یہی کچھ عمر کوٹ کے اس چرواہے کے بیٹے کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ بظاہر تو یہ ایک افسانہ لگ رہا ہے مگر ایساحقیقت میں ہوا ہے۔ سوشل میڈیا میں لاکھ برائیاں سہیں مگر کچھ اچھائیاں بھی ہیں۔ اسکی مدد سے فی الفور بہت سی باتیں صاحب دل خواتین و حضرات کے سامنے آنے پر وہ اس پر فوری ایکشن لیتے ہیں۔ سندھ میں عمر کوٹ کے علی رضا کی ویڈیو جس میں علم کے حصول کا شوق رکھنے والے اس نوجوان کو اس کا والد کہتا ہے اعلیٰ پڑھائی کا شوق چھوڑو یہ خیال دل سے نکالو جانور (بکریاں) چراؤ اس میں چار پیسے ملیں گے۔ پڑھ لکھ کر کچھ بھی نہیں ملے گا۔ ان حوصلہ شکن حالات میں دل میں تعلیم کی لگن رکھنے والے اس نوجوان کی ویڈیو مہران یونیورسٹی کے صاحب دل وائس چانسلر کی نظروں سے بھی گزری تو انہوں نے علی رضا کے نام سکالر شپ جاری کر کے اسے یونیورسٹی میں داخلے کا حکم دیدیا۔ اس پر بھی علی رضا کی خوشی دیدنی ہے اور کیوں نہ ہو‘ دشت ویران میں مسافر کو پانی اور قریب المرگ کو آب حیات مل جائے تو کیا وہ خوش نہیں ہوگا۔ اسے یہ خوشی مبارک ہو۔
٭٭……٭٭
90 فیصد نہیں 70 فیصد موثر۔ آکسفورڈ ویکسین پر تنازع پیدا ہو گیا
جب کسی کی زندگی کی100 فی صد کوئی گارنٹی نہیں‘ تو یہ 70 یا 90 کا جھگڑا کیوں۔ فی الحال کیا یہ کافی نہیں کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں کرونا کے خلاف تیاری کی گئی یہ ویکسین بہرحال 90 نہ سہی 70 فیصد ہی مؤثر ہے۔ اس طرح کم از کم لاکھوں مریضوں کو جو ابتدائی سٹیج پر ہوں یا جن پر کرونا کا اثرہلکا ہوا ہو‘ اس دوا سے بہتر افاقہ ہو سکتا ہے۔ جب تک 100 فیصد والی دوا تیار نہیں ہوتی تواسی سے کام چلایا جا سکتا ہے۔ آخر معمولی اثر والی عام ادویات سے بھی کام چلایا جا رہا ہے تو اس میں کیا ہرج۔ دنیا بھر میں اس وقت کرونا کی دوسری لہر جس تیزی سے تباہی مچا رہی ہے‘ اس نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مختلف ممالک میں اموات کی شرح اس تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ وہاں کی حکومتیں ایک بار پھر سخت لاک ڈائون پر مجبور ہیں۔ انسانی زندگی کو اس ہلاکت خیز وباء سے بچانے کیلئے ایسا کرنا ضروری ہے۔ ان ممالک میں بھی کچھ لوگ احتجاج کر رہے ہیں مگر حکمران اس پر کان نہیں دھرتے۔ وہ وہی فیصلے کرتے ہیں جو عوام کی زندگی بچانے کیلئے ضروری ہو۔ جب بڑے ترقی یافتہ ممالک میں سماجی فاصلے اور لاک ڈائون کے ذریعے کرونا کا مقابلہ کرنے کی پالیسیاں پھر اپنائی جا رہی ہیں۔ ان ممالک میں ہماری نسبت صحت کی سہولتیں ہزار درجہ بہتر ہیں۔ ہمارے پاس وہ سہولتیں ہیں‘ نہ ادویات نہ ہسپتالوں میں جگہ نہ ہنگامی طبی مراکز مگر پھر بھی ہم کرونا کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے تو اسکا انجام خطرناک ہو سکتا ہے۔
٭٭……٭٭
بنک سے 10 لاکھ سے زیادہ کیش نکالنے پر پولیس کو اطلاع دینا ہوگی
پھر اس کے بعد چوروں کو پڑ گئے مور کا جو شور بلند ہوگا اس سے کانوں کے پردے پھٹیں گے۔ بھلا دودھ کی رکھوالی پر بلی اور گوشت کی حفاظت پر چیل کو کون بٹھاتا ہے۔ تو اسی طرح بھاری نقدی کی حفاظت پر پولیس کو بھلا کون عقل کا اندھاطلب کرے گا۔ اس طرح تو خطرات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ہمارے ہاں پہلے ہی مشہور ہے کہ پولیس چوروں سے ملی ہوتی ہے۔ اس سے بھی دو ہاتھ آگے کی بات کریں پولیس خود ڈاکوؤں کے ساتھ مل کر وارداتوں میں ملوث پائی جاتی ہے۔ کئی مرتبہ تو لوگوں نے لوٹنے والوں کو تھانوں میں وردی پہنے ڈیوٹی دیتے دیکھا اور ڈر کے مارے خاموش رہے۔ سو اب اگر کوئی اطلاع دے گا تو اس کا حال کیا ہوگا۔ سب جانتے ہیں۔ سب سے پہلے تو پولیس والے ہی اس سے مال کی حفاظت کیلئے مال پانی یعنی خرچہ طلب کریں گے تو یوں کم از کم 10 ہزار تو اسی سلامی پر اُڑ جائیں گے۔ آگے کیا ہونا ہے اس کا کچھ پتہ نہیں۔ کیا معلوم پولیس کی مخبری پر ڈاکو بھی راستے میں ناکہ لگائے بیٹھے ہوںاور بعد میں سارا مال آدھا آدھا تقسیم ہو۔ اورر قم کے مالک کے ہاتھ کچھ بھی نہ بچے۔خدا جانے یہ مخولیا فیصلہ کس نے اور کیوں کیا ہے۔ یہ تو کھلم کھلا عوام کے مال پر ڈاکہ مارنے کی سازش ہے۔ اب رقم نکالنے والے اور اس کی رقم کا تو خدا ہی حافظ ہے۔