؎مسجد ڈھا دے، مندر ڈھا دے، ڈھا دے جو کچھ ڈھیندا
پر کسے دا دل نہ ڈھاویں، رب دلاں وچ رہندا
بہترین ریاست وہ ہوتی ہے جس کی اقلیت کو بھی وہی بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں جو کہ اکثریت کو ہوتے ہیں۔ اقلیت کے رسم رواج کو ان کے مذہبی عقائد کے مطابق منانے پر کوئی قدغن نہ ہو۔ جہاں انصاف کی دیوی کے ترازو کا پلڑا اقلیت و اکثریت کیلئے یکساں ہو۔ عالمی سروے کے مطابق بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کا ہدف صرف مسلمان اور سکھ نہیں بلکہ نچلی ذات کے شودر ہندو اور مسیحی بھی نشانے پر ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کیمطابق بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد نفرت انگیز واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے 491سو سالہ بابر مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ہندوؤں کو متنازعہ جگہ پر مندر کی تعمیر کی منظوری دے دی۔ جس سے پوری دنیا میں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ قارئین! ان تمام حالات و واقعات کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں کہ بھارتی سپریم کورٹ نے کن وجوہات کی بناء پر فیصلہ قلمبند کیا اور کیا واقعی مغل بادشاہ بابر نے رام کی جنم بھومی کو مسمار کرکے مسجد بنائی؟ تقریباً 500سالہ پرانے مقدمہ کو اب ہی نمٹانے کے پیچھے کیا سیاسی راز مضمر ہو سکتے ہیں؟ 9نومبر کو ہندوستان کے آئین کی تین شاخوں انتظامیہ عدلیہ کی ساکھ بری طرح ٹوٹ گئی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے انتہائی بے بودا نکات کو مدار بنایا۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا ASI نے جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے موضوع بیان گھڑا کہ ’’مسجد کے نیچے غیر اسلامی ڈھانچہ ہے۔ 1857ء سے پہلے مسلمانوں کے نماز پڑھنے کے ثبوت نہیں ہیں‘‘۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جنم بھومی کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ انہوں نے 90کی دہائی میں اتنی کھدائی کی کہ زیر زمین قبریں اور انسانی ہڈیاں تک دریافت ہوگئیں۔ جن کو نظر انداز کر دیا گیا۔ حالانکہ عقلی رویہ کے مطابق ان کی کاربن ڈیٹنگ ہونی چاہئے تھی تاکہ پتہ چل سکے کہ کس دور کی ہیں۔ رام کے جنم استھان کا دعویٰ کرنے والے محض مفروضات پر ہی چیلنج کر رہے ہیں جو کہ بعید از عقل ہے۔ ہندوازم کے مطابق ان خداؤں کی تعداد 12کروڑ ہے۔ اندرا گاندھی Intemal India کے صفحہ نمبر9 میں رقمطراز ہیں کہ ’’یہ ایسا دھرم ہے اسمیں کوئی کتاب اور نہ کوئی عقائد ہیں‘‘۔ جب عقیدہ ہی پختہ نہیں ہے گنگا گئے تو گنگارام، جمنا گئے تو جمناداس تو پھر کیسے مان لیا جائے کہ جس جگہ بابری مسجد ہے وہی جنم استھان ہے۔ لینڈ ریکارڈ کس کے پاس ہے؟ کن مستند حوالوں میں یہ درج ہے؟ اسکے برعکس ظہر الدین بابر کے حالاتِ زندگی تفصیلاً بہت ساری کتابوں میں ملتے ہیں۔ بابر ایک مردِ مسلم تھا جس نے اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے متعدد علاقے فتح کیے تو پھر وہ کیونکر خانقاہوں، مندروں، گرجوں کو مسمار کر سکتا تھا جس کا حکم رسول اﷲ ﷺ نے نہیں دیا۔ اگر ظہیر الدین بابر نے مندر مسمار کیا تھا تو اس وقت کے ہندوؤں نے کوئی مزاحمت نہ کی ہوگی؟ فرض کریں کہ چلیں یہ رام کی جنم بھومی ہے تو مغل دور میں کوئی تو ہندوؤں کا مظاہرہ سامنے آیا ہوگا، یا ہندو اس دور میں اپنے دھرم سے لگاؤ نہیں رکھتے تھے۔ گزشتہ 500 سالہ مقدمہ کی انجام دہی کے پیچھے مودی سرکار کے سیاسی مفاد کا ایجنڈا کچھ یوں تھاکہ اوّل تو پورے ہندوؤں کے دل جیت لیے جائیں دوسرا ہندو و مسلم فسادات کو خودبخود ہی ہوا مل جائیگی۔ یہی دونکات ہیں جو پاک بھارت جنگ کا باعث بن سکیں گے کیونکہ مودی کو عوامی حمایت حاصل ہوگی۔ عوام کی نفی سے جنگ قائم نہیں ہو سکتی اور مودی اس وقت جنگی جنون کے خبط میں مبتلا ہے۔ یاد رکھئے! کہ َاکھنڈ بھارت کا بلیو پرنٹ تیار ہو چکا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اب بابری مسجد کیس کے بعد یکے بعد دیگرے بھارت میں مسلم تشخص و عمارات کو زمین بوس کر دیا جائیگا۔ تتمہ یہ ہے کہ معاملہ مسجد یا مندر کا نہیں بلکہ انسانوں کے اندر کا ہے۔ انڈیا کے مسلمان اپنے لیگل حق پر تھے جنہیں نظر انداز کر دیا گیا۔ مذہبی لحاظ سے مسلمانوں کے جذبات اور احساسات مجروح کر دئیے گئے۔ اسی طرح اگر مسلمان خاموش تماشائی بنے رہے اور وحدت بھی نہ رہی تو پھر اسرائیل کو خدانخواستہ مسجدِ اقصیٰ کا موقع مل جائیگا۔ ہم یونہی کفِ افسوس ملتے رہیں گے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024