امریکہ کے صدارتی انتخابات میں باراک اوباما کی کامیابی پر پاکستانی قوم کی خوشی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ ہمارے حاکموں کی غلامانہ ذہنیت نے بے شک امریکہ کی جنگ کو اپنی جنگ بنا لیا ہے۔ مگر اس سے امریکہ کے صدارتی انتخابات ہمارے انتخاب نہیں بن جاتے بلکہ یہ کڑوی حقیقت قائم رہتی ہے کہ جب تک ہم اپنے ملک کے اندرونی حالات درست نہیں کرتے۔ اس وقت تک باراک اوباما سمیت امریکہ کا ہر صدر پاکستان سے ایک نالائق اور نااہل ملازم جیسا سلوک کرتا رہے گا۔
ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ ہمارے حاکم درون خانہ حالات درست کرنے پر نہ تو خود آمادہ ہیں اور نہ ہی اس کی اہلیت رکھتے ہیں۔ سرحد پار بین الاقوامی جنگ اور سرحدوں کے اندر خانہ جنگی کے باوجود پاکستان کی حالیہ حکومتوں کے وہی مذموم اطوار ہیں جن کی وجہ سے وطن کے ابتدائی سنہری دور کی سلجھی ہوئی ترتیب درہم برہم ہو گئی۔ اور ہم بتدریج موجودہ ابتری تک پہنچ گئے۔ انکی تازہ ترین شعبہ بازی قومی مصالحتی آرڈیننس (NRO) ہے جس نے احتساب کا ہر دروازہ بند کر دیا ہے اور بدعنوانی اور کرپشن کے سارے دروازے چوپٹ کھل گئے ہیں۔ یہ شعبہ دراصل سابقہ فوج آمریت کو مخفی زندگی دینے کیلئے تھا اور اب مشرف اور حواری پس پردہ چھپ کر اپنی پتلیوں کی ڈوریاں ہلا رہے ہیں۔
صحت مندانہ سیاسی عمل کا سپوت ہونے کی بجائے موجودہ کولیشن حکومت این آر او (NRO) کے شعبہ کی اولاد ہے۔ اسی لئے آج کے سیاسی اور معاشی بحرانوں پر اسکی کوئی توجہ نہیں ہے بلکہ پرانی سمت پر الٹے پائوں جنرل مشرف کے نقش پا پر چل رہی ہے۔ ان گنت مثالوں میں سے چند ایک یہ ہیں۔ سترہویں ترمیم کی ٹوپی اوڑھے صدر زرداری اکیلے یہ سارے کرتب دکھا رہے ہیں مگر اسے جمہوریت کہتے نہیں تھکتے۔ آئین اور قانون کی نت نئی سیاسی مداخلت سے بیخ کنی کی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بھی بحال نہیں کیا جا رہا۔ تاکہ پامال شدہ قانون کی بالادستی کا قومی خواب پورا نہ ہو سکے۔ چھوٹے سر پر بڑی ٹوپی کی طرح سیاسی لوٹوں کی بھرمار سے چھلکتی ہوئی کابینہ غریب ملک پر مسلط ہے۔ ممبران اسمبلی کو ترقیاتی اخراجات اور دیگر مراعات کی سیاسی رشوتیں حسب سابق دی جا رہی ہیں… 240 بھکاریوں کا ریوڑ کشکول اٹھائے سعودی عرب پہنچ جاتا ہے۔ 1996ء میں برطرف شدہ ہزاروں سفارشی جیالوں کو مضحکہ خیز مالی نوازشات کیساتھ دوبارہ سرکاری ملازمتوں میں ٹھونسا جا رہا ہے۔ وفاداری کے انعام میں مشکوک ماضی والے افسران کو حیرت انگیز مراعات کیساتھ کلیدی ملازمتوں پر لگایا جا رہا ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں میرٹ اور صلاحیتوں کو پامال کیا جا رہا ہے‘ اسی لئے پاکستان پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے روبہ زوال ہے۔ اور یورپ اور امریکہ سے اٹھنے والی آوازیں اس ’’ناکام ریاست‘‘ کے خاتمے کی پیشین گوئیاں کر رہی ہیں۔
مندرجہ بالا حالات کی وجہ سے قوم پر انتہائی بے یقینی اور افسردگی طاری ہے۔ ایسی صورتحال میں امریکی صدارتی الیکشن کا خاموش آئینی انقلاب ہمارے لئے باعث شرمندگی ہونا چاہئے۔ ایسی شرمندگی جو ہمیں اپنے باطن میں جھانکنے پر آمادہ کر سکے تاکہ ہم پچھلی نصف صدی میں امریکہ کے حبشی نژاد باشندوں اور پاکستانیوں کے طرز عمل کا موازنہ کر سکیں۔ اس عرصہ میں انہوں نے یہ معجزہ کر دکھایا کہ اپنے سیاسی اور سماجی نظام کے جبر و استبداد کو تار تار کرتے ہوئے اس نظام کی چوٹی تک پہنچ گئے۔ اسکے مقابلے میں ہم اپنے سیاسی اور سماجی نظام کے جبر و استبداد کے سامنے ایسے سجدہ ریز رہے کہ اس نظام نے اپنے دوام کیلئے پہلے تو 1971ء میں ہمارا ملک توڑا۔ بعد ازاں ہمارے سارے ریاستی ادارے توڑے اور بالآخر ہماری امید اور خواب توڑ کر ہمیں اتھاہ افسردگی میں دھکیل دیا۔ امریکہ کے محروم طبقوں نے اپنی زمین پر اپنی صفوں میں سے باراک اوباما پیدا کر لیا‘ مگر ہم آسمان سے کسی نجات دہندہ کے اترنے کے انتظار میں نصف صدی گنوا بیٹھے۔
1955ء کا امریکہ نسلی درجہ بندی کی اس انتہا تک پہنچا ہوا تھا کہ سیاہ فام شہریوں کو سڑکوں پر چلنے والی بسوں‘ سکولوں اور اکثر مقامات بلکہ علاقوں میں جانے کی ممانعت تھی یا اور کئی پابندیاں تھیں۔ دسمبر کے مہینے میں ایک سیاہ فارم خاتون روزا پارک (ROSA PARK) بس میں سفر کر رہی تھی تو اس نے ان پابندیوں کو چیلنج کرتے ہوئے ایک سفید فام مسافر کیلئے اپنی سیٹ خالی کرنے سے انکار کر دیا۔ اسے فوراً گرفتار کر لیا گیا۔ مقدمہ چلا اور قانون کے مطابق سزا ہو گئی تو وہ ’’شہری حقوق کی تحریک کی ماں‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئی۔ تمام سیاہ فام لوگ اسی کی حمایت پر تل گئے اور پوری ریاست منٹگری میں چلنے والی بسوں کا بائیکاٹ کر دیا جو ایک برس سے زیادہ 381)دن) جاری رہا۔ جس سے بسوں کی آمدنی 80فیصدی کم ہو گئی اور ریاستی حکومت نے گٹھنے ٹیک دئیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 1956ء میں ساری ریاست کی بسوں میں نسلی تفریق ختم کر دی گئی۔
پھر امریکہ کے طول و عرض میں دیگر پابندیوں کیخلاف نہ صرف اس قسم کے پرامن مظاہرے ہوتے رہے بلکہ سیاہ فام لوگوں کے پولیس کیساتھ پرتشدد تصادم بھی ہوئے اور دھیرے دھیرے سارے ملک میں پابندیاں ختم ہوتے ہوتے 1965ء میں سیاہ فام لوگوں کو دیگر سفید فام امریکیوں کی طرح ووٹ ڈالنے کی مکمل آزادی مل گئی۔ چنانچہ تواریخ میں پہلی دفعہ کئی شہروں میں سیاہ فام میئر (Mayor) منتخب ہو گئے اور امریکہ کی پوری سوسائٹی کی ماہیت بدلنے لگی۔
امریکہ کے محروم اور پسے ہوئے لوگوں نے اپنے جائز حقوق کیلئے مسلسل اور بھرپور جدوجہد کی تو قدرت نے خوش ہو کر انہیں اوباما جیسا شخص عطا کیا مگر پاکستانیوں کی مسلسل بے عملی کاہلی اور غلامی سے قدرت اتنی ناراض ہوئی کہ ہمیں اچھی قیادت سے محروم کر دیا اور خدائی عذاب کے طور پر ایسے حاکم ہم پر مسلط ہوتے رہے جن کی مسلسل بری حاکمیت اور عوام دشمنی سے اب ہر بچے‘ بوڑھے اور جوان کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ عبرت کے اس سبق کے علاوہ ہمارا امریکی صدر کے انتخابات سے اور کوئی رشتہ ناطہ نہیں۔ اور اگر ہم یہ عبرت حاصل نہیں کرتے تو ہمیں خوشیاں منانے کا بھی کوئی جواز نہیں۔ ان خوشیوں کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی طوائف دوسروں کی شادی پر خوشی مناتی ہے۔
قدرت امریکہ پر ایک اور وجہ سے بھی مہربان ہو گئی ہے۔ کہ وہاں کی عدلیہ آزاد تھی۔ اور قانونی‘ سماجی اور نسلی دبائو کے باوجود سیاہ فام شہریوں کو انصاف دینے پر آمادہ تھی۔ اسی عدلیہ کے فیصلوں نے امریکہ میں اس خاموش انقلاب کی راہ ہموار کی۔ پاکستان کے معاملے میں یہی وجہ (یعنی عدلیہ کے فیصلے) قدرت کی ناراضگی کا باعث بنی رہی۔ 1954ء سے 2007ء تک جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کا بھوت کسی نہ کسی شکل میں انصاف کو پامال کر کے خدا کی رحمتوں کا راستہ روکتا رہا۔ یہ طرز عمل قانون قدرت کے اتنا ہی خلاف تھا جتنا امریکہ میں نسلی امتیاز تھا۔ چنانچہ قدرت یہ برداشت نہ کر سکی کہ آئین کے تحت پیدائشی طور پر آزاد عدلیہ خود ہی اپنی آزادی سے دستبردار ہو کر بدعنوان انتظامیہ کی غلام بن جائے۔ امریکہ میں صدر اوباما کی کامیابی دراصل سیاہ فام لوگوں کی قسمت پلٹنے کا ثبوت ہے۔ اور یہ ہم سے صرف اتنا تقاضا کرتا ہے کہ ہم ایک دفعہ پھر اپنے قومی تناظر کا جائزہ لیں جس کی ہلکی سی جھلک اوپر والی سطور پر ملتی ہے۔ اس پر مزید ستم یہ ہے کہ این آر او (UNO) کے حصار میں سابقہ عہد ستم کی طرح اب بھی تمام ریاستی اداروں کی صرف بیرونی پیشانیاں ہی سجائی جا رہی ہیں۔ مگر پوری ریاکاری سے ان کی اندر کی روح کو مفلوج اور پامال کیا جا رہا ہے جس سے تمام ریاستی ستون کھوکھلے ہو گئے ہیں۔ مثلاً پارلیمنٹ میں حاکمیت نہیں ہے۔ اسمبلی کی ملکی امور پر گرفت نہیں ہے بلکہ ان امور پر بحث بھی نہیں ہے۔ عدلیہ میں آزادی اور خود مختاری نہیں ہے۔ انتظامیہ کی پاک دامنی مشکوک اور اس کا احتساب معدوم ہے۔ پریس کی آزادی اصل معنوں میں مفقود ہے اور صحیح اطلاعات حاصل کرنے کا حق مصلوب ہو چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے غیرجمہوری ڈھانچوں میں عوامی آواز نہیں ہے اور حکومتی ڈھانچہ نظر تو آتا ہے مگر اچھی حاکمیت (Good Governance) کہیں نظر نہیں آتی۔ اسی نقشے کیمطابق ایک حالیہ امریکی رپورٹ کا کہنا یہ تھا کہ پاکستان میں نہ پیسہ ہے۔ نہ قانون ہے اور نہ حکومت ہے۔
اس گھپ اندھیرے میں امید کی صرف ایک ہی کرن ہے۔ نو مارچ 2007ء کو جسٹس چودھری نے جرنیلوں کے جمگھٹے میں کھلا انکار کر کے بالکل وہی اہمیت حاصل کر لی ہے جو دسمبر 1955ء میں سیاہ فام روزا پارک نے امریکن بس میں اپنے انکار سے حاصل کی تھی۔ پاکستانی عوام نے بھی جسٹس چودھری کے طرز انکار کی اسی انداز میں کھلی حمایت کی مگر اس سے آگے یہ مماثلت چل نہ سکی۔ کیونکہ پاکستان کے مخصوص نقائص عوامی جوش و جذبے پر غالب آتے گئے۔
سب سے پہلا نقص تو یہ ہے کہ رائے عامہ ہماری عدلیہ کو آزاد نہیں سمجھتی اور یہ صورتحال امریکہ کے بالکل برعکس ہے۔ دوسرا نقص یہ ہے کہ جسٹس چودھری کی پرشور حمایت کے باوجود ہمارے شہری کسی عظیم مقصد کیلئے نہ تو فی الحال سیاہ فام امریکیوں کی طرح اذیت سہنے کو تیار ہیں اور نہ ہی قربانی دینے کو۔ ممکن ہے آگے چل کر ان میں یہ ہمت پیدا ہو جائے مگر فی الحال اس کے شواہد نہیں ملتے۔ آزاد عدلیہ کیلئے حالیہ تحریک اسی نقص کی وجہ سے ضعیف ہو گئی ہے۔ حالانکہ وکلاء میں یہ مقصدی لگن بلاشبہ اسی شدت سے موجود ہے۔ جیسی امریکہ میں تھی اور وہ مسلسل اذیتیں برداشت کرتے رہے ہیں مگر انکی باہمی تفریق کی وجہ سے کامیابی کیلئے فیصلہ کن تعداد پوری نہیں ہو پاتی۔ تیسرا بڑا نقص یہ ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں بالکل مخلص نہیں ہیں بلکہ خود غرض اور موقع پرست ہیں۔ آزاد عدلیہ کیلئے حالیہ تحریک میں وہ محض رائے عامہ کے دبائو کے تحت نورا کشتی سے قوم کو بے وقوف بناتی رہی ہیں اور بالآخر فروری 2008ء کے الیکشن میں پورا منافع کما کر اس تحریک سے غداری کر گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملا ملٹری وڈیرہ گٹھ جوڑ نے جو سیاسی و سماجی نظام پاکستان پر ٹھونسا ہوا ہے یہ پارٹیاں اس کے مفادات کی بندربانٹ میں برابر کی حصہ دار ہیں اور انکی غیر جمہوری ساخت سوچ اور کارگزاری کبھی نہیں چاہتی کہ عدلیہ آزاد ہو بلکہ ان میں سے ہر پارٹی اپنے عہد اقتدار میں عدلیہ کو گھر کی لونڈی بنانا چاہتی رہی ہے۔
چوتھا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ مذکورہ بالا اتحاد ثلاثہ نے جو بدعنوان سیاسی کلچر گزشتہ نصف صدی میں دانستہ پروان چڑھایا ہے۔ اس نے عوام کو کرپشن اور بدعنوانی کی ایسی لت لگا دی ہے کہ وہ نہ تو اسے چھوڑنا چاہتے ہیں نہ خود کو بدلنا چاہتے ہیں اور نہ ہی سیاسی پارٹیوں کے موجودہ آمرانہ قزاقانہ اور منافع بخش سانچے سے ہٹ کر کسی نئی جمہوری پارٹی کا ڈھانچہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہر نئی جدوجہد بھی وہ پرانے اطوار اور پرانی بدنام قیادت کے سہارے چلانا چاہتے ہیں اگر انہیں صاف شفاف الیکشن کے ذریعے اپنی صفوں میں سے نئی قیادت تلاش کر کے ایک خالص جمہوری پارٹی بنانے کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ اسے ناقابل عمل آئیڈیلزم کہہ کر فوراً مسترد کر دیتے ہیں۔ انتہائی کڑوی حقیقت تو یہ ہے کہ مروجہ سیاسی کلچر بدعنوانی‘ ظلم اور کرپشن کیخلاف کسی قسم کی جدوجہد نہیں سکھاتا۔ بلکہ بدعنوان‘ ظالم اور کرپٹ بننے کی شعوری ترغیب دیتا ہے۔ اسی لئے ہمارے لوگ ظلم و زیادتی کیخلاف شعوری طور پر کوئی آواز اٹھانے کی بجائے۔ غیرشعوری طور پر ظلم و زیادتی کرنے والے ٹولے میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ وہ ظلم کیخلاف بولنے کی بجائے خود ظالم بننا چاہتے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ دیگر آمرانہ سیاسی پارٹیوں میں فعال ہونے کے باوجود ہمارے وکلاء بھی کسی نئی جمہوری پارٹی کی داغ بیل ڈالنے پر راضی نہیں ہوتے جو عوام کو جمہوریت سکھا سکے اور انہیں ایک نئی آواز کی طرف بلا سکے۔
صدر اوباما کی کامیابی بلاشبہ امریکن سوسائٹی کا عظیم کارنامہ ہے۔ مگر ہم جیسے ڈولتی کشتی کے مسافروں کو چاہئے کہ تہی مغزی سے کھوکھلی تالیاں بجانے کی بجائے اپنی بقا کے لئے کوئی مثبت سبق حاصل کریں اور اپنے مہلک نقائص دور کرنے کی کوئی کوشش کریں۔