
فکرت …ڈاکٹر اختر حسین سندھو
akhtar.sandhu@gmail.com
پاکستان جنوبی ایشیا اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ کس طرح رابطوں کو بحال کر سکتا ہے اور کن کن شعبوں میں تعاون کی فضا قائم کر کے خوشحالی حاصل کر سکتا ہے شعبہ تاریخ پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والی سالانہ کانفرنس کا موضوع تھا جس میں ملکی و غیر ملکی سکالرز اور طلبا و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔ تاریخ کا مضمون وسعت کے اعتبار سے جہاںسیاست، جغرافیہ، معیشت، بین الاقوامی تعلقات ، فوجی ، مذہبی ، فکری او رسائنسی موضوعات پر محیط ہے وہاںمقامی لوگوں کی طرز زندگی یعنی کلچر بھی اہم موضوع ہوتا ہے ۔ تاریخ لوگوں کے رہنے سہنے ، گیت ، جنگجو مزاج ، تاجروں اور کسانوں کی ریاستی خوشحالی میں کردار پر بھی بحث کرتی ہے ۔ قوموں کے عروج و زوال کے اسباب اور آثار قدیمہ بھی اس مضمون کے اہم موضوعات ہیں۔ انسانی معاشرے کے ماضی کے دستاویزی ثبوت کے ساتھ سلسلہ وار مطالعہ کو تاریخ کہتے ہیں۔ شعبہ تاریخ کی ا س کانفرنس جو جرمنی کی ایک تنظیم کے تعاون سے منعقد ہوئی میں پاکستان کے شہر آفاق سکالر ڈاکٹر رسول بخش رئیس ، ڈاکٹر افتخار حید ر ملک، ڈاکٹر مونس احمر، ڈاکٹر موخت اسان بایف، ڈاکٹر آفتا ب حسین گیلانی ، ڈاکٹر ظفر نواز جسپال ، ڈاکٹر شبیر احمد خاں، ڈاکٹر اگنسکا کزوسکا، پروفیسر میتھیومکارٹنے ، ڈاکٹر طارق رحمان ، پروفیسر اسلم سید، پروفیسر ڈاکٹر محمد وسیم، ڈاکٹر رضوان اللہ کوکب، ڈاکٹر رخسانہ افتخار، ڈاکٹر محبوب حسین (چیئر مین شعبہ تاریخ) اور دوسرے مایہ ناز محقیقن نے شرکت کی۔ پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین نے کہاکہ پاکستان کی ترقی کا راز بین الاقوامی سطح پر تجارت اور باہمی مفادات کے فروغ کے لیے دوستانہ ماحول پیدا کر نے کی سخت ضرورت ہے ۔ منصور خان سابق سفیر نے کہا کہ طالبا ن افغان عوام کی مقبول جماعت ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتاجس پر ڈاکٹر عظمت اللہ وزیر نے کہا کسی جما عت کی مقبولیت کا اندازا اس کی ہمسائیگی میں بسنے والی اقوام کے ساتھ تعلقات پر ہوتا ہے ۔ مجھے یہ نکتہ بہت جاندار لگاکیونکہ ہر ملک کے سر حدی علاقوں میںبسنے والی قوموں پر ہمسائیہ ممالک کے ثقافتی اثرات لازمی ہوتے ہیں کسی ملک کی جماعت کو اقتدار کی بجائے سرحد کے ساتھ بسنے والے ملکی گروہوں یا جماعتو ں کے ساتھ تعلقات کے آئینہ میںدیکھا جانا چاہیے ۔ شمال ، جنو ب ،مشرق میں بسنے والی افغان نسلوںیا جماعتوں کے ساتھ اور پھر طالبا ن کی افغانستان سرحد کے پار بسنے والی نسلوںاور ان ملکوں کے ساتھ تعلقات کی کیا حکمت عملی ہے دراصل طالبا ن کی مقبو لیت کو جانچنے کا پیمانہ ہے ۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات دراصل جنوبی ایشیا اور پھر وسط ایشائی ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دے سکتے ہیں ۔ بین الاقوامی تعلقات کے نامور سکالر ڈاکٹر رسول بخش کا کہنا تھا کہ پاکستانی ، افغان، بھارتی، ایرانی اور تمام خطے کی حکومتوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج گیس پائپ لائن منصوبہ تھا جس کے ذریعے تعاون کی فضا قائم کی جا سکتی تھی۔ دراصل یہ منصوبہ آج بھی ایشائی ممالک کی ڈپلومیسی کو منہ چٹرارہا ہے کہ حکمران اپنی اقوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیںاور سیا سی طاقت اور دانش کی کمی کی وجہ سے آپسی تعلقات کو ختم کیا جا سکا نہ ہی عوامی راے کا حصول ممکن ہو سکا۔ سیاسی بحران اور عوام میںہمسایہ ہمسایہ ممالک کے لیے نفرت پیدا کرنا بہت بڑی غلطی ثابت ہوا کیو نکہ دہاہیوں پر محیط نفر ت پھیلانے والا پراپیگنڈا کسی حکمران کو تبدیلی کے لیے قد م اٹھانے یا اصلاحات کرنے کی بہت بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے ۔ نفرت کا جن انسانوںکو بے بس کئے ہوئے ہے ۔ انٹر نیشنل کانفرنس کو کئی حصوں میںتقسیم کیا ہو ا تھا جن میں طلبا و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی بلکہ سکالرز سے سوالات بھی کیے اور خوبصور ت بحث و تمحیث کا ماحول پیدا ہوا۔اس سے خوشی ہوئی کہ پاکستانی جامعات سے کبھی کبھی ٹھنڈی ٹھنڈی ہو اکے جھونکے بھی آتے ہیںاور علمی و تحقیقی ماحول رفتہ رفتہ پروان چڑھ رہا ہے ۔ کانفرنس کا ایک سیشن ثقافتی مراجعت یا تعلق پر مبنی تھا جس میں راقم کے علاوہ ڈاکٹر عصمہ حامد اعوان ، ڈاکٹر سائرہ رمضان ، محمد وقار مشتاق، نے مقالے پیش کیے ۔ اس سیشن کی صدارت پروفیسر قمر عباس نے کی جبکہ شعبہ آرکیالوجی کے صدر ڈاکٹر حمید نے نظامت کے فرائض سر انجام دیے ۔ شرکا میںپروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس اور طلبا و طالبات نے پنجابی زبان، مادری زبان ،پاکستان کی پالیسی، بین الاقوامی تعلقات میںمادری زبان کی اہمیت، ثقافتی یلغار کا مقامی زبانوںاور ثقافتوں پر عمل مقامی رد عمل کے موضوعات پر سیر حاصل بحث کی۔
آثار قدیمہ کی موجودہ دور میں آفادیت اور قدیم رابطہ سڑکوں اور پہلوئوں کو کس طرح جدید دور میںزندہ کر کے حکومتی اداروںکی مدد کی جا سکتی ہے اس نے بہت دلچسپ انجئینر نگ ، ٹیکنالوجی،آئی ٹی اور جنگی اور فلسفہ پر تمام علمی کام مغرب کر رہاہے ان ایجادات کو سمجھنے اور نافذ کرنے کے لیے اسی زبان کی ضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم یا دوسرے ممالک انگریزی کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ پاکستا ن میں مقامی زبانوں پر اربوں خرچ کر کے ہر موضوع پر انگریزی یا دوسری زبانوں میں شائع ہونے والی کتابوں کا ایک ماہ میں ترجمہ کر دیا جائے جس طرح ایران میں ہوتا ہے پا پھر پاکستانی طلبا و طالبا ت انگریزی پر اتنی گہری دسترس حاصل کرلیںکہ وہ بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کرکے اپنی جگہ پیدا کر سکیں۔ زبان سب سے بڑی رکاوٹ ہے جوپاکستانی طلبا و طالبات کے لیے رکاوٹ بنی ہوئی ہے لہذا ضرورت ہے کہ طلبا و طالبات حکومتی پالیسی یعنی ترجمہ اصلاحات کا انتظار نہ کریںکیو نکہ اس پراجیکٹ پر کھربوںروپے کی ضرورت ہے جبکہ پاکستا ن کی معاشی حالت اتنی گنجائش نہیںرکھتی لہذا دوسرا راستہ ہے کہ ہمارے طلبا وطالبات انگریزی زبان پر بہت زیادہ توجہ دیںتاکہ وہ انگریزی میں تمام مضامین کو اچھی طرح سمجھ سکیں اور تحقیق میںاپنا نام پید ا کر سکیں۔ تمام شرکا نے ڈاکٹرمحبوب حسین کی خدمات کو سراہااور بہترین انتظامات پر پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا.