
قاضی عبدالرئوف معینی
حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے۔حج کی فرضیت قرآن کریم،احادیث پاک اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ فریضہ حج کی ادائیگی زندگی میںکم از کم ایک بار ہر اس شخص پر فرض ہے جو بیت اللہ شریف تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔اس فرض کی ادائیگی کے لیے سفر محبت اور عشق کا سفر ہے۔بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی کی زیارت کا شوق اور دید کی تڑپ ہر صاحب ایمان کے دل میں ہوتی ہے۔ ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ حرمین شریفین کی زیارت کرے اور خانہ خدا اور روضہ رسول پاک کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائے۔آج کل عازمین حج کے قافلے رواں دواں ہیں۔خو ش نصیب ہیں وہ تمام افراد جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت نصیب فرمائی۔بقول شاعر
اپنے اک ناچیز بندہ پر خدا کایہ کرم
عزت و اکرام سے لے جا کے دکھلایا حرم
ملک عزیز میں وزارت مذہبی امور میں حج کے انتظامات کے لیے ایک بڑا شعبہ مو جود ہے۔اس شعبہ میں سینکڑوں افراد کام کرتے ہیں جن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے انتظامات کریں کہ سرکاری عازمین حج آرام و سکون سے فریضہ حج اد اکر سکیں۔مشاہدہ یہ ہے کہ ہر سال عازمین حج مسائل کا شکارہوتے ہیں۔مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مقدس سفر پریشانی میں طے ہوتا ہے اور عبادات کا ذوق و شوق متاثر ہوتا ہے۔ویسے بھی دیگر مسائل کے ساتھ اخراجات آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں اللہ خیر فرمائے۔
اس بارتکریم شہدائ کے حوالے سے کالم لکھنے کاارادہ تھا لیکن پروفیسر سلیم حنیف نے ایک پیغام کے ذریعے عازمین حج کے ایک اہم مسئلہ کی طرف توجہ مبذول کروائی۔اس لیے نہایت ہی اہم مسئلہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ساسی موضوع پر لکھنے کا ارادہ کر لیا۔کراچی سے تعلق رکھنے والے ممتاز دانشور،لکھاری، سائنسدان اور ماہر طبیعات پروفیسر سلیم حنیف ملک عزیز کا گرانقدر سرمایہ ہیں۔سائنس کے ساتھ ساتھ آپ حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اپنی تحریروں میں اس کا اظہار فرماتے ہیں۔سائنس کے حوالے سے آپ کے پر مغز مضامین سائنس کے طلبائ کے علاوہ عام قاری کے لیے بھی دلچسپی کا سامان لیے ہوتے ہیں اور معلومات میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔پروفیسر صاحب نے عازمین حج کے حوالے سے جن مسائل کی نشان دہی فرمائی وہ قابل توجہ اور حل طلب ہے۔فرماتے ہیں’’سرکاری حج اسکیم سال 2023ئ کی پروازوں کا آغاز اکیس مئی سے ہوا۔پہلے دن کراچی سے تین پروازیں روانہ ہوئیں۔عازمین حج کے ویزہ پرواز سے تقریبا اڑتالیس گھنٹہ پہلے اپلائی کیے گئے تھے جن میں سے پچاس سے زیادہ عازمین کے ویزہ بائیومیٹرک شو نہ ہونے کی وجہ سے جاری نہ ہو سکے۔عازمین حج کا دوبارہ بائیو میٹرک کروا کر ویزہ جاری کروایا گیا۔ ہر پرواز میں کم و بیش ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے۔عازمین کو دو دن پہلے کال آتی ہے کہ حاجی کیمپ سے پاسپورٹ وصول کریں اور دوبارہ بائیو میٹرک کروا کرمتعلقہ آفیسر سے رابطہ کریں تاکہ بروقت ویزہ جاری ہو سکے۔دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ایک شخص اپنی مکمل تیاری کے ساتھ پاسپورٹ ، ویزہ اور ٹکٹ وصول کرنے کا منتظر ہوتا ہے اور اس کو اڑتالیس گھنٹہ قبل درج بالا صورت حال سے گزرنا پڑ جائے تو اس کی کیفیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔اور متاثرہ فرد جس کا ویزہ نہ آنے کی وجہ سے پرواز ری شیڈول ہواس کے بار میں تو سوچ کر دل دہل جاتا ہے۔اس صورت حال کی وجہ سے ایک فرد ہی متاثرنہیں ہوتا بلکہ پورا گروپ بھی ڈسٹرب ہوتا ہے۔ہو یہ رہا ہے کہ وہ تمام عازمین حج جو پرواز کے منتظر ہیں وہ اڑتالیس گھنٹے قبل اپنے ٹیلی فون ہاتھ میں لیے بار بار چیک کرتے نظر آتے ہیں کہ پرواز نزدیک ہے اور کسی بھی لمحے کال آسکتی ہے کہ پاسپورٹ وصول کریں اور بائیو میٹرک دوبار ہ کروائیں‘‘۔ پروفیسر سلیم حنیف کے سوالات یہ بھی ہیں کہ کیا ویزہ ایک ہفتہ پہلے اپلائی نہیں ہو سکتا تاکہ ویزہ پراسس میں جو مسائل ہیں وہ بر وقت حل ہو سکیں۔اگر پرائیویٹ سکیم کا ویزہ پراواز سے بیس دن قبل ویب سائٹ پر نظر آرہا ہوتا ہے تو وزارت مذہبی امور کا سرکاری عازمین کو عجلت میں پرواز سے دو دن قبل اپلائی کرنے کی کیا وجہ اور حکمت ہے۔
پروفیسر صاحب ایک ذمہ دار اور تعلیم یافتہ شہری ہیں ان کے تحفظات اور مشاہدات من و عن پیش کر دیے ہیں تاکہ بر وقت سد باب کر کے عازمین حج کے مسائل کو حل کیا جا سکے۔ہمارے معاشرہ میں معاشی اور معاشرتی وجوہات کی بنیاد پر لوگ عمر کے آخری حصہ میں حج پر جاتے ہیں۔ان میں بہت سے افراد تعلیم یافتہ نہیں ہوتے اس لیے وہ ان معاملات کو نہیں سمجھ سکتے جس کی وجہ سے بہت سے مسائل کا شکار رہتے ہیں۔وزارت مذہبی امور سے گذارش ہے کہ ان امور کو مد نظر رکھتے ہوئے لائحہ عمل تیار فرمائیں۔