ز’’پھیکی پھیکی سی اداس عید‘‘

عید نام ہے خوشی کا مسرت کا شادمانی کا لیکن افسوس اس بار یہ عید ان تمام خوشیوں اور مسرتوں سے خالی ہی رہی۔ کرونا وباء نے جیسے اس عید کی خوشیوں کو نگل لیا ہو بالکل پھیکی پھیکی سی اداس اداس سی عید لیکن عید تو پھر عید ہی ہے چاہے فاصلوں کو رکھ کر منائی جا رہی ہو یہ عید ہمیں تمام عمر یاد رہے گی۔ میں اپنی زندگی کے 53 سال گزار چکا ہوں لیکن آج تک اس طرح کی پھیکی پھیکی عید کا کبھی مزا نہیں چکھا۔ شروع سے سنتے آرہے ہیں کہ عید میٹھی ہوتی ہے لیکن آج احساس ہوا کہ کبھی کبھی اس میٹھی عید کا ذائقہ اتنا نمکین کڑوا اور ترش بھی ہو سکتا ہے اس بار عید کی نماز پڑھنے کے بعد دور دور سے اشاروں سے سلام دیکھ کر دل بھر آیا کہ یااﷲ ہم سے ایسی کون سی غلطی سرزد ہو گئی کہ جس کا خمیازہ اس صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے کہ عید کی نماز سے پہلے اور عید کی نماز ادا کرنے کے بعد لاؤڈ سپیکر پر اعلانات کئے جا رہے ہیں کہ کسی سے ہاتھ نہ ملانا کسی کو گلے نہیں لگانا۔ یقین جانیئے یہ اعلانات سن کر دل خون کے آنسو روتا رہا اور یہی صدا لگاتا رہا کہ کاش یہ لمحات نہ آتے یہ وقت نہ آتا آج ہماری خوشیوں کو کس کی نظر لگ گئی ایک عجیب سی دل میں کسک ہے اس بار عید پر نہ تو دوستوں کی محفلیں سجیں نہ دلبروں سے ملاقاتوں کا اہتمام ہوا نہ مٹھائیاں تقسیم کی گئیں نہ ایک دوسرے کے گھر پکوان بھیجے گئے عید کے پہلے دوسرے اور تیسرے روز جو یار دوستوں اور رشتہ داروں کے ہاں دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا تھا وہ بھی نہ کیا جا سکا کیونکہ اعلان کیا گیا تھا کہ اس بار اپنے گھروں پر رہیں ‘ گھروں سے باہر ہرگز نہ نکلیں کرونا وباء انتہائی شدید ہے کسی سے گلے نہ ملا جائے کسی سے ہاتھ نہ ملایا جائے فقط دور سے سلام کہا جائے۔ سوچتا ہوں کہ کیسا وقت آ گیا کہ اس وبا نے وطن عزیز کے تمام دانشوروں حکومتی عہدیداروں ‘ ڈاکٹروں اور ارباب اختیار و اقتدار کو ایک بات پر متفق کر دیا کہ اگر اس وبا سے بچنا ہے تو صرف اپنے گھروں پر رہنا ہے سوشل ڈسٹنس رکھنا ہے یعنی سماجی فاصلہ اب ناگزیر ہو چکا ہے کسی سے بات کرنا ہے تو دور سے کسی کی خیریت معلوم کرنا ہے تو فاصلہ رکھ کر حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ مفتیان کرام نے بھی فتویٰ دے دیا ہے کہ ان دنوں میں نماز میں بھی فاصلہ رکھا جائے۔ اب یہی فاصلہ دنوں میں بھی نظرآنے لگا ہے عید کے موقع پر جب لوگ خلوص دل سے بغیر فاصلے کے ہاتھ اور گلے ملتے تھے تو تمام سال لوگوں کے دل آپس میں ملے رہتے تھے۔ ان کی محبت اور چاہت میں فاصلہ نہیں آتا اور پھر سال گزر جاتا تھا اور دوبارہ عید آ جاتی تھی اور لوگ دوبارہ اپنی محبتوں اور چاہتوں کو تازہ کر لیتے تھے لیکن افسوس اس بار اس عید کی کسک مدتوں یاد رہے گی دیار غیر میں رہنے والے لوگوں کے لئے بھی یہ عید وطن عزیز میں رہنے والوں سے کسی طور بھی مختلف نہیں میرے ایک دوست عقیل کویت میں مقیم ہیں ان سے عید پر فون پر بات ہوئی تو بہت افسردہ دکھائی دئے ان کے دل کی تڑپ ان کے اداسیوں اور غمزدہ حالات کے الفاظ اب بھی میری سماعتوں سے ٹکرا رہے ہیں ان کا بھی کہنا تھا کہ دیار غیر میں ہم پاکستانی عید کی خوشیاں منا کر اپنے پیاروں کی جدائی بھول جاتے تھے دوستوں سے ہلا گلا ہوتا تھا۔ پارٹیاں انجوائے کرتے تھے سفارت خانے میں بھی عید کی پروقار محفل سجتی تھی لیکن اس بار یہ عید ہمیں جیسے مار گئی ہو ہمیں اپنے زندہ رہنے پر بھی شک ہونے لگا ہے مجھے اپنے دوست کے جذبات و احساست کی پژمردگی پر خود بھی رونا آرہا ہے اور میں اپنے رب کے حضور دعاگو ہوں کہ یااﷲ! تجھے تیری کریمی صفات کا واسطہ اپنے پیارے حبیبؐ کا واسطہ تو اپنے ’’کُن‘‘ کے ذریعے اس جہاں کی مصیبتوں کو ٹال دے اور اپنے بندگان کو اس موذی وبا سے چھٹکارا دلا دے اس زمین پر پھر سے امن قائم کر دے اپنی مسجدوں کو پھر سے آباد کر دے اس پھیکیعید کا ایک سبب کرونا رہا اور دوسرا کراچی کا طیارہ حادثہ ہے جو اپنی منزل پر لینڈنگ سے ایک منٹ قبل کریش کر گیا زندگی بھی عجیب مسافر ہے کبھی 80,70 سال کا سفر بلاعذر طے کر لیتی ہے اور کبھی ڈیڑھ گھنٹے کے سفر میں تھک کر ڈھیر ہو جاتی ہے اور ہمیں یہ یقین دلاتی ہے کہ میں برف سے زیادہ جلد پگھل جانے والی چیز ہوں برف جو دیکھنے میں بہت سخت اور مضبوط نظر آتی ہے لیکن آہستہ آہستہ پگھل جاتی ہے۔ زندگی روز بتاتی ہے کہ میں بلبلے سے زیادہ باریک سطح پر ہوں جیسے بلبلے کی سطح پر مختلف رنگ تو ضرور نظر آتے ہیں لیکن ان کی رنگت ایک ہلکی سی پھونک سے ختم ہو جاتی ہے اور اس کے وجود کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے دل بہت افسردہ ہے جہاز پر سفر کرنے والی فیملیز کے بارے میں سوچ سوچ کر دماغ ماؤف ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کی یہ عید انتہائی پھیکی پھیکی سی اور افسردہ ہے آج میرا دل زندگی سے سوال کرتا ہے کہ تو اتنی ناپائیدارپہلے تو کبھی نہ تھی لیکن پھر زندگی مسکراتی ہوئی یہ کہہ کر چلی جاتی ہے کہ اے انسان! یہ دل لگانے کی جا نہیں ہے آج یہ عید مجھ پر بہت کچھ آشکارا کر گئی بس دعا ہے کہ اﷲ جہاز کے بدنصیبوں کو شہادت نصیب کرے اور ہماری آئندہ زندگی میں اس طرح کی عید نہ آئے۔
٭٭٭٭٭٭