یوم تکبیر گذرا ہے اس تاریخی دن کی یاد میں ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں سیاسی و عسکری شخصیات کے کردار پر روشنی ڈال رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس عمل میں جس جس نے بھی مثبت کردار ادا کیا ہے اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے کام کیا ہے قوم ان سب کی مقروض اور ممنون ہے۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما اور کارکنان اپنے اپنے قائدین کی خدمات کو یاد کر رہے ہیں۔ کوئی ذوالفقار علی بھٹو کو یاد کر رہا ہے تو کوئی نواز شریف کی خدمات کی تعریف کر رہا ہے تو کوئی بینظیر بھٹو کی خدمات گنوا رہا ہے، کہیں کہیں لوگ غلام اسحاق خان کو بھی یاد کر رہے ہیں۔ اس تاریخی دن کے موقع پر ہمارے قومی ہیرو ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے قومی خدمات کو یاد کیا جا رہے۔ کوئی شک نہیں ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے بہترین انداز اور مختصر وقت میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جن دنوں پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے اور ایٹمی طاقت حاصل کرنے کے لیے کام ہو رہا تھا اس دور میں غلام اسحاق کو یاد نہ کرنا بھی ناانصافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سفر کے آغاز سے ہدف حاصل کرنے تک جس جس نے بھی حصہ ڈالا ہے وہ سب قابلِ تعریف ہیں۔ بھلے وہ سیاسی شخصیات ہیں یا عسکری، بھلے وہ بیوروکریٹس ہیں یا صحافتی شخصیات سب کو یاد کرنا چاہیے کیونکہ اگر آج ہم ایٹمی طاقت رکھتے ہیں اور بھارت کی براہ راست جارحیت سے بچے ہوئے ہیں تو اسکی سب سے بڑی وجہ وہ ایٹم بم ہی ہے جسے بنانے اور دنیا کو دکھانے کے سفر میں ہم نے بڑی مصیبتوں اور مسائل کا سامنا کیا ہے لیکن مستقل مزاجی اور سچی لگن کے باعث ہم ایٹمی طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور آج یہی طاقت دشمنوں کو کھٹک بھی رہی ہے ان شاء اللہ قوم متحد ہو کر دشمنوں کا مقابلہ بھی کرے گی اور انہیں منہ توڑ جواب بھی دے گی۔
یوم تکبیر کے موقع پر ایٹمی طاقت کے حصول سے دھماکوں تک کے کرداروں کے حوالے بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ یقیناً ہمیں ایمانداری کے ساتھ اس اہم مقصد میں شامل تمام افراد کو ایمانداری کے ساتھ کریڈٹ دینا چاہئے۔ اس بارے ہمیں نئی نسل کو اپنے محسنوں کے بارے تفصیلات سے آگاہ کرتے رہنا چاہیے۔ پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے میں جن افراد نے محنت کی ہے ان کی خدمات کو نئی نسل تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمیں قوم کو بتانا چاہیے کہ اس کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی، یہ دھماکے کیوں کیے گئے اور خطے میں طاقت کے توازن کے لیے یہ کس حد تک ضروری تھا۔ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان دھماکے نہ کرتا، پاکستان کے پاس یہ صلاحیت نہ ہوتی تو ہمارا ازلی دشمن ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ آج بھارت میں بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر شروع ہو چکی ہے، بھارت میں مسلمانوں کو مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کشمیر کے مسلمانوں کو کلمہ پڑھنے کی وجہ سے کرفیو اور لاک ڈاؤن برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ حالیہ دنوں کی مثالیں ہیں تاکہ لوگوں کو یہ سمجھ آ سکے کہ ایٹمی پروگرام کی بنیاد، اس پر مسلسل کام اور ایٹمی دھماکے کیوں ضروری تھے۔
یوم تکبیر پر ہونے والی سیاسی بحث میں ہم ایٹمی پاکستان کی دو اہم شخصیات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ ایک سابق چیف آف آرمی سٹاف ضیاء الحق اور دوسرے پاکستان کی صحافتی تاریخ کی سب سے معتبر اور قد آور شخصیت امام صحافت جناب مجید نظامی ہیں۔ضیاء الحق لمبے عرصے تک صدر پاکستان بھی رہے اس دوران انہوں نے ایٹمی پروگرام کو جس عزم، لگن اور جوان مردی سے جاری رکھا وہ ان کی ایٹمی پاکستان سے محبت اور ملک کے ناقابل تسخیر دفاع کے ساتھ غیر مشروط محبت کا اظہار ہے۔ ایٹمی پاکستان کے حوالے سے ان کی خدمات لائق تحسین ہیں۔ بالخصوص اس مسئلے پر سیاسی جماعتوں کو سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ضیاء الحق کے کردار پر ضرور روشنی ڈالنی چاہیے۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو نے بنیاد رکھی تو کیا اس کے بے نظیر بھٹو نے سارا کام کیا یا پھر اچانک میاں نواز شریف نے آ کر ایٹمی دھماکے کر دیے۔ یقیناً ایسا نہیں ہے اس دوران جو کام ہوا ہے اس کا کریڈٹ بھی کسی کو ملنا چاہیے۔
اس حوالے سے صحافتی دنیا میں سب سے اہم ترین شخصیت امام صحافت مجید نظامی مرحوم ہیں کیونکہ جب دھماکوں کا وقت آیا تو اس وقت دھماکوں کے معاملے میں حکومت کی تقسیم کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے یہ مجید نظامی ہی تھے جنہوں نے اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو واضح پیغام دیا کہ میاں صاحب دھماکہ کریں ورنہ قوم آپکا دھماکہ کر دے گی۔ مجید نظامی ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے ڈٹے رہے اور حکومت کو مجبور کیا کہ وہ اس بارے کوئی درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش نہ کرے نہ ہی کوئی نرمی اختیار کرے۔ صحافتی دنیا میں ایسی دو ٹوک رائے کسی نے اختیار نہیں کی، نہ ہی اسے ایک مقصد بنایا نہ ہی کسی اور نے اسے پاکستان کے محفوظ مستقبل سے جوڑا چونکہ مجید نظامی دہائیوں تک نظریہ پاکستان کے فروغ اور بھارت کی پاکستان دشمنی اور ہمارے ازلی دشمن کا اصل چہرہ بے نقاب کرنے کے لیے کام کرتے رہے بلکہ ان کی ساری زندگی اسی کام میں گذری ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا کہ بھارت ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کے ساتھ کیا کر سکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے وقت کے وزیراعظم کو صرف ایک راستہ دکھایا اور راستہ ایٹمی دھماکوں کا تھا۔ آج جو سیاست دان بڑھ چڑھ کر اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں کچھ ملک سے بھاگ گئے تھے اور کچھ ڈر گئے تھے اس وقت یہ مجید نظامی ہی تھے جنہوں نے قوم کی ترجمانی کی اور ملک کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ قوم کو ان پر فخر ہے۔ ہمیں ہر سال یہ دن مناتے ہوئے ان غیر سیاسی شخصیات کا ذکر ضرور کرنا چاہیے جن کا مقصد صرف اور صرف آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانا تھا ان کا کوئی سیاسی مقصد نہیں تھا ان کا مقصد مضبوط، محفوظ، خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان تھا۔ ہم ان تمام سیاسی و غیر سیاسی شخصیات کے مقروض ہیں۔ اللہ پاکستان کو تاقیامت قائم و دائم رکھے، ہمیں اس کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ملک کے دشمنوں کو نیست و نابود کرے۔ آمین
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024