مکرمی! تعلیم ملکی خوشحالی اور ترقی میں اہم کردار کرتی ہے ۔ تعلیم کے سبب ہی ملک کے تمام شعبوں میں جدیدیت آتی ہے۔ لہذا ریاست یا حکومت کو تعلیمی فیصلے کرتے وقت زمینی حقائق اور طلبہ کے مستقبل کا ضرور خیال رکھنا چاہیے ورنہ ملک پستی کی طرف سفر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ کرونا نے جہاں دنیا بھر کے نظاموں کو تباہ و برباد کیا ہے وہاں تعلیمی نظا م میں بھی جمود سی کیفیت پیدا ہوتی جارہی ہے۔ کرونا اس وقت آیا جب سال کے آخر میں تعلیمی سال مکمل ہوکر امتحانات کے انعقاد کا بندوبست جاری تھا۔ تعلیم آن لائن ہوگئی ہے۔یونیورسٹیوں کے تعلیمی سسمٹر کے معاملات خراب ہوئے ہیں۔ حالات کے ایسے تناظر میں حکومت پاکستان اور صوبوںکے وزرا نے جو فیصلے کیے ہیں۔ وہ طلبا کی ذہنی صلاحیتوں کی عکاسی کے مطابق نہیں ہیں۔ نویں اور گیارویں کے طلبہ و طالبات کے دسویں اور گیارویں کے امتحانات کے بغیر ان کے نویں اور دسویں کے نمبروں کے تناسب کے مطابق 3% اضافی نمبر دیئے جانے ہیں۔ جبکہ نویں اور گیارویں کے رزلٹ کے مطابق طلبہ کو پروموٹ کر دیا جانا ہے۔ ان فیصلوں کا اطلاق تمام سرکاری اور نجی سکولوں میں ہونا ہے۔ جو طلبا بغیر امتحان کے پروموشن کے مطمئن نہیں ہیں۔ اگر حالات درست ہوئے تو وہ ستمبر میں امتحان دیکر خود بخود پروموٹ فارمولا سے نکل جائیں گے۔ دوسری کیٹگری جو کمپوزٹ امتحان دینا چاہتے ہیں ۔ تیسری کیٹگری جو چند مضامین کا امتحان دے رہے تھے۔ چوتھی وہ جو 40% سے بھی کم رزلٹ کے طلبہ ہیں، ان کو پروموٹ کر دیا جائے گا۔ حکومت کا موقف ہے کہ وہ 4 لاکھ بچوں کے نویں ، دسویں، گیارویںاور بارویں جماعت کے امتحانات ایک ساتھ لینے کا رسک نہیں لے سکتے ہیں۔ اس پر موثر پالیسی کو لاگو کرنے کے لئے حکومت کو بورڈز کے قوانین میں بھی ردو بدل کرنا ہے ۔ اور اگلے سال بھی 2021 کے سالانہ امتحانات کے متعلق بھی قابل عمل پالیسی پر بھی سو چ و بچار کرنا ہے۔ تعلیمی فیصلے کبھی کبھار غلط بھی ہو جاتے ہیں اور وہ صرف ایسی صورت میں غلط ہوتے ہیں جب ملک میں موجود ماہرین تعلیم اور دانشوروں کی مشاورت اس میں شامل نہ ہو۔ہم چاہتے ہیں کہ ایسی مشاورت ہونی چاہئے۔ ( سید عارف نو ناری لاہور)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024