کرونا وائرس بدستور قیامت ڈھا رہا ہے۔پوری دنیا اسکے تدارک اور اس سے نجات کی راہ تلاش کرنے میں سرگرداں ہے۔ سرِ دست کوئی میڈیسن تیار نہیں ہوسکی۔ پاکستان میں گو بہت سے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں اموات اور کرونا کے پھیلاؤ کے حوالے سے صورتحال بہتر ہے مگر احتیاط کا دامن چھوٹا تو حالات گھمبیر ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔اب جس صورتحال کو ہم اور ہماری حکومت بہتر قرار دے رہی ہے اس میں بھی 12 سو سے زائد اموات ہوچکی ہیں اور مریضوں کی تعداد 60 ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔کرونا کی میڈیسن نہ آنے تک احتیاط ہی کرونا کیخلاف کارگر ہتھیار ہے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ آئیسولیشن کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں سخت لاک ڈاؤن بہتر گرداناگیا ہے۔مگر ہمارے جیسا کثیرالرجال ملک جس کی آدھے کے قریب آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے وہاں سخت لاک ڈاؤن کا مطلب انسانی المیے کو جنم دینا ہے۔ مرکزی حکومت اسی لئے عمومی لاک ڈاؤن میں بھی کمی لا رہی ہے اور سپریم کورٹ کی بھی یہی منشاء سامنے آئی ہے۔
پورے ملک میں کرونا کے خلاف یکساں پالیسی اور لائحہ عمل کا نہ ہونا بھی بدقسمتی ہے اور اس پر سیاست بھی ہورہی ہے۔حالات کی نزاکت کو پس پشت ڈالنے کا عمومی رویہ بھی سامنے آرہا ہے۔عید پر ایس او پیز کی دھجیاں بکھرتی نظر آئیں۔ ٹرانسپورٹ کی بحالی پر ٹرانسپورٹر کل زور دے رہے تھے‘ حکومت نے اسکے اجرا کا مشروط اعلان کیا تو ٹرانسپورٹر ہڑتال کرکے بیٹھ گئے۔ملک کے کسی کونے میں کاروبار کھولنے پر کہیں احتجاج ہورہا ہے اور کہیں کاروبار بند کرنے پر غم و غصے کا اظہار جاری ہے۔
سپریم کورٹ کی طرف سے از خود نوٹس پر مرکز اور صوبوں کو یکساں پالیسی بنانے کی ہدایت کی گئی۔مگر اس پر عمل نظر نہ آیا تو سپریم کورٹ نے خود حکم جاری کردیا۔ مرکز کے اقدامات اور سپریم کورٹ کے حکم میں زیادہ فرق نہیں ہے۔مزید براں وفاق نے سپریم کورٹ کے حکم پر من و عن عمل کرنے کا یقین دلایا جبکہ سندھ حکومت نظر ثانی کیلئے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کررہی ہے۔ مرکز کی پالیسی کو سندھ کے سوا دیگر صوبے فالو کررہے ہیں۔سندھ سخت لاک ڈاؤن کا حامی ہے۔ہر صوبے کو اٹھارویں ترمیم کے تحت کا فی خود مختاری دی گئی ہے۔ کرونا کیخلاف مرکز کی پالیسیوں کے برعکس پالیسی بنانے اور لائحہ عمل اپنانے کا اختیار بھی صوبوں کو اسی ترمیم کے تحت حاصل ہے۔لیکن اسکے مثبت نتائج بھی سامنے آنے چاہئیں۔ہر حکومت کیخلاف اپوزیشن سرگرم عمل ہوتی اور اسے میڈیا کے ایک ا ہم حصے کی حمایت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔غیر جانبداری کا تقاضا ہے کہ صورتحال کو خاص مقصد کے تحت فیڈ کی گئیں رپورٹس نہیں بلکہ حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے۔آج کے اعدادو شمار پر نظر ڈالیں تو سندھ میں کورونا کے مریضوں کی تعداد چند دن میں تیزی سے بڑھتے ہوئے پنجاب سے دوہزار زیادہ ہوگئی جبکہ دو ہفتے قبل پنجاب میں سندھ کے مقابلے میں ایک ہزار سے زیادہ متاثرین تھے۔ سندھ میں پنجاب کے مقابلے میں صورتحال بہتر ہوتی تو سندھ کے اقدامات کو فالو کیا جاتا مگر اب سندھ کو وہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے جو سپریم کورٹ کہہ رہی ہے۔پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نظر ثانی کیلئے ضرور جائے۔اسکے پیش نظر یہ بھی ہونا چاہئے کہ اٹھارہویں ترمیم کو ڈھال بنا کر ایسے اقدامات کئے جاتے رہے جس سے کروناکو کنٹرول کرتے کرتے غربت و افلاس سے انسانی بحران پیدا ہونے کے خدشات جنم لیتے نظر آئے تو سپریم کورٹ 18ویں ترمیم پر بھی کوئی فیصلہ دے سکتی ہے۔سپریم کورٹ کی گائیڈ لائنز کو حرزِ جاں بنانا ہی ہرصوبے ملک اور معاشرے کے بہترین مفاد میں ہے۔تحریری آرڈر میں چیف جسٹس گلزار احمد کہا ہے کہ "آئین کے تحت وفاق کے پاس ایگزیکٹیو اختیارات ہیں اور آئین کے تحت صوبے وفاق کے فیصلوں پر عملدرآمد کے پابند ہیں، اس لئے صوبے وفاقی اختیارات کا احترام کرتے ہوئے عملدرآمد یقینی بنائیں۔"وفاق کے برعکس پالیسیاں بنانے والے عدالت عظمیٰ کے اس آرڈر پر ضرور غور کریں۔سپریم کورٹ نے تمام اکائیوں کو جوڑنے کی کوشش کی ہے۔اس حوالے سے مجھے بہت پرانا واقعہ یا آگیا جو قارئین کی نذر ہے۔
اتفاق فائونڈری کے مشہورِ زمانہ جوناتھن کیس میں نواز فیملی کے ساتھ بڑی زیادتی ہو رہی تھی۔ بے نظیر بھٹو کا دور تھا۔ میں اس وقت ہائی کورٹ کا جونیئر جج تھا۔ یہ کیس میرے سامنے پیش ہوا۔ فائل دیکھنے کے بعد میں نے متعلقہ افراد کو اور ریکارڈ طلب کر لیا۔ اس وقت یہ کیس ابتدائی مراحل میں تھا۔ اتفاق فائونڈری کی طرف سے انکے جنرل منیجر پیش ہوئے۔ اس زمانے میں ریلوے سیکرٹری زاہدی صاحب تھے۔ میں نے کہا کہ بادی النظر میں (prima facie) اتفاق فائونڈری سے زیادتی ہو رہی ہے۔ کاروبار کرنا ان کا بنیادی حق ہے اور آپ نے انکی ویگنیں روک رکھی ہیں۔ لاکھوں کروڑوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ لیکن یہ ایک انتظامی معاملہ ہے۔ میں اس میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہتا جب تک کہ مجھے اس پر مجبور نہ کر دیا جائے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ آپ لوگ آپس میں راضی نامہ کر لیں؟ اسکے مطابق میں فیصلہ کر دوں گا۔ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ زاہدی صاحب نے کہا کہ جناب، میں تو کل وزیراعظم کے حکم سے ملک سے باہر جا رہا ہوں۔ آپ کا حکم تھا، اس لئے میں پیش ہو گیا۔ یہاں نہ راضی نامے کی کوئی گنجائش ہے اور نہ ہم راضی نامہ کریں گے۔ ازراہِ کرم مجھے رخصت ہونے کی اجازت دیجئے۔ مجھے اسلام آباد واپس پہنچنا ہے اور کل بیرونِ ملک جانا ہے۔ وہ بار بار زور دے کر یہ بات کہہ رہے تھے کہ مجھے وزیراعظم نے بھیجا ہے۔میں نے کہا: سیکرٹری صاحب، یہ وزیراعظم کا اختیار ہے کہ آپ کو جہاں چاہے بھیجیں، اور آپ ان کے حکم کی تعمیل کریں۔ لیکن میرے دائرئہ اختیار میں بھی یہ ہے کہ میں آپ کو روک لوں، آپ کو حراست میں لے لوں… اور میں آپ کو حراست میں لے رہا ہوں۔ جب تک اس کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا، میرے حکم کے بغیر آپ نہیں جا سکتے۔ آپ ریکارڈ لے کر آئیں۔ فون کر کے وزیراعظم کو بتا دیں کہ آپ کو روک لیا گیا ہے۔انہوں نے وزیراعظم کو فون کیا یا نہیں، میں نہیں جانتا۔ پیشی کے دوران جب میں نے فائل پڑھی تو اس میں وزیراعظم کی طرف سے لکھا ہوا تھا کہ انہیں ویگنیں فراہم کر دی جائیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگ اپنی وزیراعظم کا کہنا بھی نہیں مانتے؟ وزیراعظم ویگنیں دینے کا کہہ رہی ہیں اور آپ دے نہیں رہے۔ کم از کم اپنی وزیراعظم کے حکم کی تو تعمیل کریں۔گیارہ بجے کے بعد محکمہ ریلوے کے متعلقہ افراد کا موڈ بڑا نارمل نظر آیا، ان کا کہنا تھا کہ سر آپ جو فیصلہ کر دیں ہمیں منظور ہے۔ میں نے ازراہِ تفنن کہا کہ بھئی آپ لوگوں نے تو راضی نامہ کر لیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ جتنی ویگنوں پر راضی نامہ ہوا ہے، اتنی کافی ہیں ان سب نے میری بات سے اتفاق کر لیا میں نے کہا کہ دستخط کریں سب نے دستخط کئے کمپرومائز کی صورت میں آرڈر آ گیا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024