جمعۃ المبارک‘6 شوال ‘ 1441 ھ‘ 29؍مئی 2020ء
رہائی کی مہم چلانے پر مجید نظامی کا شکریہ، ایٹمی دھماکوں سے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا: ڈاکٹر قدیر
28 مئی 1998ء پاکستان کی تاریخ میں ایک یادگار دن ہے کہ جب ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان نے پہلی اسلامی ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دفاع کو بھی ناقابل تسخیر بنا دیا، اس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی پوری ٹیم کے ساتھ ساتھ ذوالفقار علی بھٹو ، ضیاء الحق ، غلام اسحاق خان ، بینظیر بھٹو اور نواز شریف سمیت سب کا اپنا اپنا کردار ہے۔ بہرحال ’’نوائے وقت‘‘ اور مجید نظامی کی ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے تحریک کو بھی مؤرخ کبھی نظرانداز نہیں کر پائے گا کہ جب مجیدنظامی نے نواز شریف کو دوٹوک کہا کہ ’’وزیر اعظم صاحب ایٹمی دھماکے کر دیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔‘‘ یہ جملہ بھی پاکستان کے دفاع کی تاریخ میں رقم ہو گیا پھر مشرف دور میں پاکستان کے ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر ابتلاء و آزمائش آئی تو ’’نوائے وقت‘‘ نے ان کا بھرپور دفاع کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نظربندی کے خلاف مجید نظامی نے باقاعدہ ’’نوائے وقت‘‘ میں مسلسل اشتہاری مہم چلائی اور ’’صدائوں کے قحط‘‘ میں جرأت اظہار کو نیا سلیقہ دیا، جس کی پاداش میں مشرف دور میں ’’نوائے وقت‘‘ کے اشتہار تک بند کر دئیے گئے لیکن ’’نوائے وقت‘‘ اپنے ماٹو ’’جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا بہترین جہاد ہے‘‘ پر قائم رہا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائی تک اشتہاری مہم جاری رکھی اور ثابت کیا کہ ’’نوائے وقت‘‘ اسلام اور پاکستان کے ہیروز کی قدر کرتا ہے اور اسلام، دو قومی نظریہ اور پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا دفاع اپنا اولین فریضہ گردانتا ہے، اس کیلئے چاہے اسے کوئی بھی قربانی دینا پڑے ، وہ دریغ نہیں کرتا۔ بے شک ؎
وطن کی مٹی گواہ ہے ہم پر
ہمیشہ حق کی صدا رہے ہیں
اللہ کرے، پاکستان دن گنی رات چگنی ترقی کرے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بھی صحت و سلامتی نصیب ہو اور ’’نوائے وقت‘‘ بھی پھلتا پھولتا رہے اور بقول علامہ اقبال …؎
پھلا پھولا رہے یا رب، چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دیکر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
٭…٭…٭
شدید مہنگائی سے عوام تنگ آ چکے ، حکومت سے نجات چاہتے ہیں: آصف زرداری
ہفتہ، عشرہ سے سابق صدر مملکت آصف زرداری کی صحت کے بارے میں کئی افواہیں پھیلائی جاتی رہی ہیں، جس پر پیپلز پارٹی کی طرف سے سختی کے ساتھ تردید کی جاتی رہی ہے۔، تاہم بعض حلقوں میں پھر بھی ’’کھسر پھسر‘‘ ہوتی رہی، جس کا ’’توڑ‘‘ پیپلز پارٹی کے بعض لیڈروں نے مقدمات درج کرانے کی دھمکی دے کر بھی نکالا تاکہ لوگ کچھ نہ کہیں اور خاموش رہیں۔ تاہم آصف زرداری کے پچھلے کئی دنوں سے بیانات کے بعد بعض مخالفین اور کئی ’’دوست نما دشمنوں‘‘ کی ’’خواہشات‘‘ کے غبارے سے ہوا نکل گئی لیکن سینئر سیاستدان آصف زرداری کی گزشتہ روز پی پی رہنما نیئر بخاری سے ٹیلی فونک گفتگو نے ان کی صحت کے بارے میں تمام شکوک و شبہات دور کر دئیے۔ آصف زرداری نے اپنی صحت کی بجائے مہنگائی سے تنگ عوام کی فکر ظاہر کی اور کہا کہ ’’ عوام شدید مہنگائی سے تنگ آچکے، حکومت سے نجات چاہتے ہیں۔‘‘ ظاہر بات ہے صرف اتنا کہنے سے تو حکومت نہیں جائے گی اور ویسے بھی سابقہ ادوار میں کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہتی رہی ہیں جو اب بند ہوگئی ہیں۔ بقول حبیب جالب …؎
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
لیکن مزاحمتی کردار کی بجائے آصف زرداری کے جارحانہ رویہ اختیار کرنے سے اپوزیشن سے ’’بے خوف‘‘ حکومت کو بھی ’’کان‘‘ ہوگئے ہیں کہ آصف زرداری ’’کہیں نہیں گئے‘‘ بلکہ سیاست میں پوری طرح ’’اِن‘‘ ہیں۔ اب آپ ان کی صحت کے بارے میں فکرمند ہونے کی بجائے اپنی خیرمنائیں، اسی میں آپ کا بھلا ہے۔
٭…٭…٭
وقت آگیا ہے وفاق سندھ حکومت کیلئے آرٹیکل 235کا ڈنڈا چلا دے: اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی
جب ملک میں آئین کی دفعہ 2/58بی اپنے پورے ’’جوبن‘‘ پر تھی اور اس کے اختیارات میں چڑیا کو بھی پر مارنے کی مجال نہیں ہوتی تھی تو اس وقت ’’2/58بی‘‘ کا ’’کلہاڑا‘‘ چلایا جاتا تھا لیکن سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر اورتحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی نے بڑا ’’ہولا ہتھ‘‘ رکھا ہے کہ وفاق کو ’’ڈنڈا‘‘ چلانے کا مشورہ دیا ہے۔ لگتا ہے فردوس شمیم کے اس کے مشورے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ، ان کی کابینہ اور دیگر تمام ارکان اسمبلی ’’آئین پاکستان‘‘ کی کتابیں ڈھونڈ رہے ہوں گے تاکہ آرٹیکل 235کے بارے میں جانا جاسکے۔ جیسے بھٹو نے ضیاء الحق سے کہا تھا کہ آپ آئین کا آرٹیکل 6پڑھیں، اس لئے سارے ارکان سندھ اسمبلی حلقہ بنا کر ’’آئین پاکستان‘‘ کا مطالعہ شروع کر دیں لیکن ایسا نہ ہوکہ آرٹیکل 235کا ڈنڈا چلے تو ’’آٹے کے ساتھ گھن بھی پس جائے۔‘‘ اس لئے اپوزیشن لیڈر کو اپنا اور اپنے دیگر ’’ہم جماعتوں‘‘ اور ’’اتحادیوں‘‘ کا بھی خیال رکھنا چاہئے کیونکہ ’’تخت‘‘ سے ’’تختہ‘‘ ہوتے دیر نہیں لگتی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ فردوس شمیم کو کہنا پڑے کہ …؎
جو کچھ تھی یہاں رونق، سب باد چمن سے تھی
اب کنج قفس مجھ کو سونا نظر آتا ہے