معزز قارئین! مَیں نے کئی بار لکھا کہ ’’ جب 1980ء کے اوائل میں میرے جدّی پُشتی پیر و مُرشد خواجہ غریب نوازؒ میرے خواب میں میرے گھر رونق افروز ہُوئے تو مجھ پر اُن کی برکات سے پاکستان کے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے کئی غیر ملکی دوروں کے دروازے کھل گئے تھے ، پھر مجھے ’’ نوائے وقت ‘‘ کے کالم نویس کی حیثیت سے ستمبر 1991ء میں صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کے ساتھ خانہ کعبہ کے اندر جانے کی سعادت حاصل ہُوئی(اور مجھے یقین ہے کہ اِس کا کچھ ثواب جنابِ مجید نظامی کو بھی ملا ہوگا) ۔
جولائی 2001ء میں صدر جنرل پرویز مشرف ’’ آگرہ سربراہی کانفرنس‘‘ میں بھارت گئے تو ، مَیں اُن کی میڈیا ٹیم میں بھی شامل تھا۔ پروگرام کے مطابق صدر جنرل پرویز مشرف کو دہلی ، آگرہ کے علاوہ اجمیر شریف میں خواجہ غریب نوازؒ کی بارگاہ میں بھی حاضری دینا تھی۔ مَیں بہت خُوش تھا لیکن، صدر پاکستان کا دورہ ٔ اجمیر شریف منسوخ ہوگیا۔ اُس پر مجھے بہت دُکھ ہُوا، پھر مجھے اپنے طور پر جون 2004ء میں اجمیر شریف ، نئی دہلی اور چندی گڑھ جانے کا موقع مل گیا۔
اُن دِنوں بھارت میں پاکستانی سفارت خانے میں انفارمیشن گروپ کے سینئر رُکن برادرِ عزیز کامران علی خان "Minister Information" تھے ۔ کامران علی خان تحریک پاکستان کے نامور کارکن گورنمنٹ کالج لاہور کے سابق پرنسپل جناب اشفاق علی خان کے صاحبزادے ہیں ۔ میری اُن سے 1973ء سے دوستی ہے۔ اُنہوں نے مجھے نئی دہلی میں "A.P.P" ( ایسوسی ایٹڈڈ پریس آف پاکستان ) کے بیورو چیف نعیم چودھری سے ملوایا تو میرا دورۂ دہلی دو آؔتشہ ہوگیا ۔مجھے دہلی سے اجمیر شریف جانے اور وہاں سے واپس پھر دہلی آنے پر دہلی کے 22 خواجگان کی بارگاہوں میں حاضری کا موقع ملا۔ دراصل یہ تحفہ مجھے برادرِ عزیز نعیم چودھری کی طرف سے ملا ۔ رات کا وقت تھا۔ خواجہ غریب نوازؒ کے خلیفہ حضرت خواجہ قطب اُلدّین بختیار کاکی ؒ کی بارگاہ کے دروازے بند کئے جا رہے تھے لیکن، برادرم نعیم چودھری نے جب دربان سے میرا تعارف کرایا اور کہا کہ ’’ میرا یہ دوست پاکستان سے آیا ہے ‘‘ تو دربان صاحب مجھ پر مہربان ہوگئے اور مَیں نے حضرت بختیار کاکیؒ کی بارگاہ میں حاضری دِی۔
برادرِ عزیز نعیم چودھری نے مجھے کئی بھارتی "Union Ministers" سے بھی ملوایا۔ برادرم کامران علی خان سراپا محبت تھے۔ اُنہوں نے مجھے کئی نامور صحافیوں ، اردو پنجابی اور ہندی کے کئی شاعروں اور ادیبوں سے بھی ملوایا تو، مجھے بہت لطف آیا۔ مَیں نے یہ بھی نوٹ کِیا کہ ’’ کامران علی خان اپنے ہر ملاقاتی کو علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کا نظریہ پاکستان سمجھانے کی پوری کوشش کرتے تھے ۔کامران علی خان مجھے ( احاطۂ خواجہ نظام اُلدّین اولیاء ؒ میں واقع ) مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کے مزار پر لے گئے تو مجھے یاد آیا کہ علاّمہ اقبالؒ نے اپنی نظم ’’مرزا غالبؔ ‘‘ میں اُن سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ …؎
’’فکر اِنساں سے ، تیری ہستی یہ روشن ہُوا!
ہے پرِ مرغِ تخیل کی ، رسائی تا کُجا ؟ ‘‘
…O…
کامران علی خان کی قیادت میں مجھے اورنگزیب عالمگیر دَور کے فارسی شاعر حضرت سرمد شہید ؒ کے مزار پر حاضری کا موقع ملا جسے اورنگزیب عالمگیر کے مفتی اعظم محمد قوی ؔ کے فتوے سے شہید کردِیا گیا تھا۔ (اُن دِنوں) دہلی میں بہت ہی گرمی تھی جب برادرم کامران علی خان مجھے ’’انصاری روڈ ‘‘پر پرانی کتابوں کی دکانوں (ڈھیروں) پر لے گئے ، جہاں مَیں نے اپنی مرضی کی ہندی اور اردو کی کتابوں کی خریداری کی ۔ اجمیر شریف میں میرا قیام "Ambassador Hotel"میں تھا۔ ہوٹل کے مالک نے مجھے ایک مسلمان رکشہ ڈرائیور فراہم کردِیا جو مجھے کئی بار درگاہ شریف میں لے گیا اور اُس نے پورے اجمیر کی مجھے سیر کرائی۔
مَیں کئی بار اور کئی جگہ رُک گیا، پھر مَیں گلیوں اور محلّوں میں گھومتا پھرتا رہااور سوچ رہا تھا کہ ’’ نہ جانے کس مقام پر خواجہ غریب نوازؒ اپنے چالیس مریدوں کے ساتھ ہندی ( راجستھانی ) زبان میں تبلیغ اسلام کر رہے ہوں گے؟جس سے متاثر ہو کر میرے بزرگوں نے اسلام قبول کر لِیا تھا ‘‘۔ معزز قارئین! حضرت امیر خسروؒ سمیت ہندی ، اردو اور پنجابی کے کئی شاعروں نے حضور پُر نُور صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم ،مولا علی مرتضیٰ ؓ ، آئمہ اطہارؓ اور اولیائے کرام ؒ کو اپنا محبوب ؔبناکر اور خُود عورت ؔکا رُوپ دھار کر اُنہیں مخاطب کِیا ہے ۔ مَیں نے بھی یہی جسارت کی ہے ۔’’ خواجہ جی ؒبنے، مورے مِیت ،رے!‘‘کے عنوان سے میری منقبت ملاحظہ فرمائیں …؎
’’اَن مُولت سگرے ، بِھیت رے!
گیا کارا کارا ، اتِیت رے!
مَیں تو گائوں ، پریم کے گِیت رے!
خواجہ جیؒ بنے ، مورے مِیت رے!
…O…
خواجہ ؒنے ، مو پر ، نجر کری!
مَیں پَل میں ہوگئی ، بھاگ بھری!
میرے گیت بنے ، سنگیت رے!
خواجہ جیؒ بنے ، مورے مِیت رے!
…O…
گھر بار نہ تھا ، بن باسی تھی!
مَیں جنم جنم کی ، پیاسی تھی!
پڑ گئی ہِردے میں شیت رے!
خواجہ جیؒ بنے ، مورے مِیت رے!
…O…
خواجہ ؒنے بٹھایا ، چرنوں میں!
مَیں تو کھو گئی ، پریم کے ، جھرنوں میں!
یونہی جائے ، جِیون ، بِیت رے!
خواجہ جیؒ بنے ، مورے مِیت رے!
…O…
جگ کو ، اُجیارا ، دیں خواجہ!
اُپدیش نیارا، دیں خواجہ!
سندیش ہے اُن کا، پریت رے!
خواجہ جیؒ بنے ، مورے مِیت رے!
…O…
مَیں آگیا کاری ، خواجہ ؒ کی!
کِرپا آبھاری ، خواجہ کی!
اُن پر ہے اثرؔ ، پرتِیت رے!
خواجہ جیؒ بنے ، مورے مِیت رے!‘‘
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024