پھل، پھول ہمیشہ سے نگاہوں کو بھاتے اور دلوں میں کشش پیدا کرتے ہیں اور جب بات ہو معیار کی تو ان کی خوشنمائی سحر مانند کھینچ لیتی ہے۔ ایسے ہی ایک ریڑھی پر سجے اعلیٰ کوالٹی کےفروٹ دیکھکر اس نے گاڑی روکی۔ فروٹ خریدا اور پیسے دینے کے لئے ایک ہاتھ آگے بڑھایا تو قریب کھڑے شخص نے دوسرے ہاتھ سے ”پھل والا لفافہ“ یہ کہتے ہوئے چھین لیا کہ ”میرے گھر میں ایک وقت کی ”خالی روٹی“ کھانے کا آٹا نہیں اور تم اتنے مہنگے فروٹ خریدنے کی عیاشی کر رہے ہو۔ قارئین غمِ روزگار کی اپنی آہیں ہوتی ہیں یہ بھی ایک بے روزگار نوجوان کی چیخ ہے جو فریسٹریشن میں ڈوبتے معاشرے کے بطن سے برآمدہوئی۔ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں 5.3 فیصد اضافہ سے 13 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ جبکہ شرح بڑھنے کے خدشہ میں مزید ” 4 لاکھ افراد“ کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جبکہ ”وزیر خزانہ“ کا کہنا ہے کہ روزگار کے ”25 لاکھ“ مواقع پیدا ہونگے۔ اور بے روزگاری کی شرح کم کر کے ”3 فیصد پر لے آئیں گے۔ کب کس طرح اور کیسے؟؟ کسی بھی واضح طریقہ کار۔ قابل بھروسہ لائحہ عمل اور ٹھوس عملی پروگرامز کی عدم موجودگی میں صرف ”زبانی جمع خرچ پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان حالات میں کہ آپ کا ملک 14 سے 16 گھنٹے کی برقی ترسیل سے محرومی کا عذاب سہہ رہا ہو۔ پہلے سے چل رہی انڈسٹری کی یہ صورت ہو کہ نصف 40 فیصد سانس لے رہی اور بقیہ ”وینٹی لیٹر“ پر پڑی ہو۔ نئے روزگار کے مواقع کیسے اور کہاں سے پیدا کروائیں گے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارا مسئلہ انرجی بحران ہے۔ خیر یہ تو وہ مسئلہ ہے جو موجود ہے اور معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے۔ دیمک کے تدارک کی حکومتی کاوشیں یقیناً ایک دن رنگ لے آئیں گی۔ پوری قوم دعا تو کر رہی ہے۔ کالم نگاروں کی اکثریت سیاست اور عالمی امور پر زیادہ سیاہی خرچ کرتی ہے۔ مگر ہماری نوجوان نسل پر نہیں۔ یہ اس ملک کی طاقت اور مضبوطی کی علامت ہیں۔ مگر کوئی بھی اس پود کے بنیادی مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں اٹھا رہا۔ یہ ہے ایک MBA ڈگری ہولڈر بینکر کی E.mail کا خلاصہ۔ ”قیصر“ کو اس امر پر بے حد دکھ ہے کہ وہ اور اس جیسے لاکھوں لوگ نوکری ڈھونڈ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنی علمی قابلیت، مہارت سے بہت نیچے سطح کی نوکری کی تلاش میں دن بھر دربدر پھرتے اور شام کو روتے ہوئے گھر آتے ہیں۔ حکومتی اعلانات عزائم کے بیچ ایک بہت بڑا خلا ہے۔ اسے غفلت کہہ لیں یا لاپرواہی ۔ قصداً یا غیر ارادی۔ وجوہ کچھ بھی ہوں مگر ہے مسائل سے چشم پوشی کی ایک بہت بُری مثال۔ سینٹ قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ کی میٹنگ میں انکشاف ہوا ہے کہ وفاقی اداروں میں 50 ہزار جبکہ ذیلی اداروں میں 65 ہزار گریڈ تا 1 تا 22 کی آسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔
سباق امریکی صدر ”فرینکلن روزویلٹ نے کہا تھا کہ ہم اپنے نوجوانوں کا مستقبل نہیں بنا سکتے لیکن انہیں مستقبل کیلئے تیار ضرور کر سکتے ہیں۔ نوجوان کسی بھی ملک کا گرانقدر اثاثہ ہوتے ہیں۔ پاکستانی یوتھ لاتعداد مسائل میں گھری ہوئی سخت ڈپریشن کا شکار ہے۔ کوئی بھی ادارہ یا شخص ان کے علمی درجے، مہارت کے مطابق مراعات دینے کے موڈ میں نہیں۔ یوں تو ملکی سطح پر سینکڑوں یوتھ پروگرامز متعارف کروائے گئے۔ مگر خطیر فنڈز خرچ کرنے کے باوجود منصوبے وسیع تر بنیاد پر اپنے مفید اثرات پھیلانے میں ناکام رہے کیونکہ اصل فوکس تقاریب کا پر شکوہ انعقاد اور تشہیر بازی تھا۔ چیک اینڈ بیلنس کے مو¿ثر نظام کی عدم موجودگی اور کڑی نگرانی نہ ہونے کے وجوہات باعث قومی خزانے کو کھربوں روپے کا ٹیکہ الگ سے لگتا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 68 فیصد 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ 25 فیصد نوجوان بزنس کرنے کے خواہاں ہیں مگر سرمائے کی عدم دستیابی پاﺅں کی زنجیر بنی ہوئی ہے۔ تمام تر سکیموں۔ پروگرامز کا حال ”پٹھان کے سائیکل“ کی طرح ہے۔ خوب سجی ہوئی۔ لیپاپوتی کی آخری حد تک بھری ہوئی مگر اندر سے خالی برتن۔
بجٹ کے آفٹر شاکس
مسلمان دنیا کے کسی بھی خطے میں رہائش پذیر ہوں۔ کسی بھی میدان میں اعلیٰ ترین ڈگری کے حامل ہوں۔نفع کی ہوس ان کے دل سے نکلتی نہیں۔ طمع مسلمان کے خون میں شامل ہے۔ بجٹ کے اعلان سے پہلے ہی مارکیٹوں میں لازمی ضروریات کی اشیاءکے نرخ بڑھ چکے تھے اور بجٹ کے فوراً بعد مزید بڑھا دیئے گئے۔ ایک بجٹ دوسرا رمضان المبارک کی آمد۔ کئی جگہوں پر دکانداروں اور گاہکوں کے مابین تلخ کلامی اور ہاتھا پائی کے واقعات سننے کو ملے۔ پولٹری فیڈ، دودھ، دہی سے لیکر الیکٹرانکس کے سامان تک جتنا ٹیکس بھی عائد کیا گیا ہے لا محالہ اس کا بوجھ عوام کے جھکے ہوئے کندھوں کو اٹھانا پڑے گا۔ آنےوالے وقت میں حکومت کیا پھرتی دکھاتی ہے۔ فی الوقت عوام کے مسائل کے حل میں تو یہ بجٹ قوم کی معاشی تکالیف میں اضافے کا باعث بنا ہے۔ شاید یہی وہ معاشی دھماکہ ہے جس کا بلند آہنگ انداز میں اعلان کیا جاتا تھا۔واقعی دھماکہ ہے کہ عوام کی پھٹی ہوئی جیبیں تار تار ہو کر بکھر گئی ہیں۔ امریکی صدر کے قول کو تو ہم مثال نہیں بنا پائے اور نہ ہی عمل کرنے کا مستقبل میں کوئی ارادہ ہے۔ مگر برطانیہ کی مثال ہی سامنے رکھ لیتے جن سے ہم نے آزادی حاصل کی تھی۔ ایک غیر مسلم ملک میں اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں 50 فیصد کمی کر دی گئی ہے۔ رمضان المبارک کے احترام میں وہ بھی مہینہ پہلے مہنگائی نے تو بر سر روزگار لوگوں کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ تو ذرا سوچئے جو بے روزگار ہیں ان کا کیا حال ہوگا۔ روہنگیا مسلمانوں کو تو 50 لاکھ ڈالرز دیدیئے اور جن کی محنت، مشقت کے پیسے تھے ان کو تو ہم ایک لاکھ ڈالر بھی دینے پر آمادہ نہیں۔مارکیٹ میں روز مرہ بنیاد پر اشیائے صرف کی قیمتوں میں روپوں کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سبزی اور فروٹ کی قیمتوں میں 30 روپے سے 40 روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ بازار میں دستیاب سبزی اور فروٹ کا معیار بھی بہتر نہیں ۔ اس وقت قوم بجٹ کے آفٹر شاکس کی زد میں ہے۔ حکومت کو چاہئے وہ تنخواہ میں اضافہ 25 فیصد تک بڑھا دے۔ مارکیٹ مانیٹرنگ کے نظام کو عملی طور پر روزانہ کی بنیاد پر چیک کرنے کا بھرپور اقدام کرے۔ قوم لازمی کھانے پینے کی چیزوں کو خریدنے کی سکت کھو رہی ہے تو اس وقت بجلی کی قیمتوںمیں اضافہ نہایت ہی نا مناسب اور بدترین معاشی جھٹکا ہے جو حکومت کی طرف سے اس کو لگا ہے۔ حکومت اس اضافے کو واپس لے اور اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم کے گراف میں بے روزگاری اور معاشی تنگدستی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کو جب نوکری نہیں ملے گی تو وہ جرائم کی طرف رخ کرے گا اور حقیقت یہ کہ پکڑے جانےوالے مجرموں کی شناخت کے بعد یہ ہولناک انکشاف ہوتا رہتا ہے کہ اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے۔ مناسب روزگار اور ہر خاندان کی ضروریات زندگی کی لازمی فراہمی یقیناً ریاست کے فرائض میں شامل ہے۔ جنگ ہو یا امن ریاست اس فرض سے غفلت نہیں برت سکتی۔ شہریوں کی معاشی خوشحالی اور صحت ، تعلیم تک ہر شخص کی آسان رسائی ممکن بنانا ریاست پر فرض ہے۔ ہم تب تک جرائم پر قابو نہیں پا سکتے جب تک ہم اپنے نوجوانوں کے لئے اچھے اور معیاری روزگار کے مواقع تقریروں سے نکال کر عملاً پیدا نہیں کرتے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38