علاقائی سیاست میں تبدیلی کی توقعات
رمضان المبارک کی برکات کا آغاز ہو نے کے بعداللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں کا نزول بھی شروع ہوچکاہے دوسری طرف گرمی کی شدت میں بھی زبردست اضافہ ہورہاہے لیکن مسلمان اللہ تعالی سے باران رحمت کے لےے بھی دعائیں مانگ رہے ہیں عموماً رمضان المبارک میں سیاست سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں ٹھہراﺅ آجاتا ہے ڈیرہ غازیخان میں بھی کچھ یہی کیفیت ہے لیکن ایک غیر سیاسی شخصیت کی طرف سے اپنی شہرت اور انا کو بلند رکھنے کے لےے شہر میں تشہیری بورڈز کاسلسلہ بڑھ رہا ہے گذشتہ دنوں گورنمنٹ ہائی سکول نمبر1جوکہ اب سنٹر آف ایکسیلنس بن چکا ہے کہ اساتذہ نے سنٹر آف الیکنسی کو دانش سکول اتھارٹی کے ساتھ منسلک کرنے پر اور ان کی تنخواہیں بند کرنے پر ایک احتجاجی مظاہر ہ کیا بعد میں اساتذہ حضرات اسی غیر سیاسی شخصیت کے پاس بھی چلے گئے جنہوں نے شرط اول تشہری بورڈز نصب کرانے کے،، احکامات جاری کئے“ اور اب نام لکھے بغیر ان مجبور اور بے بس اساتذہ کی طرف سے اس شخصیت اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی تعریفوں میں بڑے بڑے بورڈز نصب کرائے جائیں گے ۔کچھ اس قسم کی کیفیت پہلے ڈیرہ غازیخان تامظفرگڑھ ڈبل روڈ بنانے کے حوالے سے بھی رونما ہوچکی ہے جبکہ دوسری طرف یہ ڈبل روڈ یہاں کے منتخب ایم این ایزحضرات کے لےے،، مسئلہ کشمیر “بن چکی ہے کہ درجنوں مرتبہ عوام سے یہ وعدہ کیاگیا کہ بہت جلد ڈیرہ تا مظفرگڑھ ڈبل روڈ کا سنگ بنیاد رکھا جارہاہے۔لیکن ابھی تک وزیر اعلیٰ پنجاب کو فرصت ہی نہیں مل رہی کہ وہ ڈیرہ غازیخان کی عوام کا ایک دیرینہ اور جان لیوا مسئلہ حل کردیں اور اب سٹی ایم پی اے سید علیم شاہ کی طرف سے ڈبل روڈ کی تعمیر کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر تازہ ترین خوشخبری سنائی گئی ہے جس میں گذشتہ روز وزیر اعلیٰ پنجاب سے دوران ملاقات سید علیم شاہ نے ڈیرہ تامظفرگڑھ ڈبل روڈ کے حوالے سے بات کی تو وزیر اعلیٰ پنجاب نے یقین دلایا کہ اس سال کے بجٹ میں اس روڈ کو بھی شامل کیاجارہا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ شمع کب جلے گی اور ڈبل روڈ کا سنگ بنیاد کب تک رکھا جائےگا ۔بڑے افسوس کےساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ڈیرہ غازیخان کے تین ایم این ایز اور 6 ایم پی اے ابھی تک ڈبل روڈ کا مسئلہ حل نہیں کراسکے اور اب 2018جوکہ الیکشن کا سال ہے۔ اس میں حکمران جماعت کو یقینا مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ڈیرہ غازیخان شہر کی سیاست میں کچھ نئے چہرے بھی اس دفعہ الیکشن میں حصہ لینے کی تیاروں میں مصروف نظر آتے ہیںلیکن ابھی تک عوام کارجحان سیاست کی طرف نہیں ہورہا کیونکہ ڈیرہ غازیخان کو ہر آنے والے الیکشن میں ڈیرا پھلاں تا سہرا بنانے کا دعویٰ تو کیاجاتارہالیکن عملی طور پر یہاں کے منتخب نمائندے کچھ بھی نہ کرسکے ۔شہر کی صورتحال یہ ہے کہ گندگی کم ہونے کا نام نہیں لیتی میونسپل کا رپوریشن میں گروپ بندی کا خاتمہ ہوچکاہے۔میئر شاہد حمید خان چانڈیہ اورسٹی ایم پی اے سید عبدالعلیم شاہ کے چیئرمینوں اور کونسلرز میں صلح ہوچکی ہے صلح یقینا ایک انتہائی اچھا عمل ہے لیکن اس صلح کے بعد اب شہریوںکو شہر کے حوالے سے اچھے نتائج بھی ملنے چاہیں میئر حمید خان چانڈیہ اب علیم شاہ گروپ کے چیئرمینوں کے ساتھ ملکر شہر کی خوبصورتی کے لےے جلد از جلد اقدامات کریں۔ لغاری گروپ اب کسی طور پر بھی این اے172پر اپنا مضبوط امیدوار ضرور سامنے لائیں گے ۔لیکن حافظ عبدالکریم کے علاوہ اس حلقہ میں کسی دوسرے امیدوار کو ٹکٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے کرنا ہے جبکہ اعلیٰ قیادت کے سامنے حافظ عبدالکریم ابھی تک سرخرو ہیں دوسری طرف ڈیرہ غازیخان کی سیاست میں کھوسہ گروپ کے قائد بزرگ سیاسی رہنما سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ اوران کے صاجزادے سردار سیف الدین خان کھوسہ اور سردار دوست محمد خان کھوسہ کا ایک بہت بڑا حلقہ احباب اور اثر رسوخ ہے گذشتہ ایک ماہ سے ایک افواہ یہ بھی گرم ہے کہ سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ اور دوست محمد خان کھوسہ بہت جلد پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلیں گے جبکہ اس حوالے سے سابق صدر آصف علی زرداری سے بات چیت چل رہی ہے۔لیکن ذرائع کے مطابق دوست محمدخان تک تو پیپلز پارٹی میں شمولیت کسی نہ کسی طرح سے ہوسکتی ہے لیکن سردار ذوالفقار علی خان جو آج بھی مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر شمار ہوتے ہیں وہ شاہد مسلم لیگ سے جدا نہیں ہونا چاہتے اس لےے اب بھی مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ صلح کی امید باقی ہے ۔ چونکہ سیاست میں کوئی شئے بھی حرف آخر نہیں ہوا کرتی اس میں صرف جھوٹی انا کی قربانی دیناپڑتی ہے اگر اس انا کا مسئلہ نہ ہوتا تو پھر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ میں اختلاف بھی نہ ہوتا اور ویسے بھی میاں برادران کے ساتھ اگرکوئی اختلاف پیدا ہواتھا تو وہ سردار دوست محمد خان اور میاں حمزہ شہباز کی ،،کچھ خاص وجوہات ،، کی وجہ سے نمودار ہواتھا وگرنہ سردار ذوالفقار علی خان کا میاں برادران کے ساتھ اپناذاتی کوئی بھی اختلاف نہیں ہے مسلم لیگ(ن) بھی اپنی کارکردگی کی وجہ سے ان یا آﺅٹ بھی ہوسکتی ہے خصوصاً ڈیرہ غازیخان کے لےے تو اس دور میں کسی قسم کے میگا پراجیکٹ وغیرہ شروع نہیں کئے گئے اور نہ ہی منتخب نمائندوں کی ڈویژنل اور ضلعی بیوروکریسی میں سنی گئی ہے۔مسلم لیگ (ن) کے موجودہ دور اقتدار میں اگر کسی نے صحیح معنوں میں اختیارات استعمال کےے ہیں تو وہ یقینا یہاں کی بیوروکریسی ہی ہے جن کو وزیر اعلیٰ پنجاب نے مکمل بااختیار بنایا ہوا ہے ۔لیکن عوام میں بیوروکریسی نہیں بلکہ منتخب نمائندوں کا اثر ہوا کرتا ہے ۔لیکن اس دور میں نمائندوں کو بہت کم اختیارات دے گئے اس لےے جنرل الیکشن2018میں مسلم لیگ (ن) کو کافی مشکلات کا سامناکرنا پڑے گا۔